بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں قراءت میں وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا کے بجائے  ویقولون للذین آمنوا پڑھ لینا


سوال

امام نے تراویح کی نماز میں آیتوَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا أَهَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ ۙ إِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ ۚ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَأَصْبَحُوا خَاسِرِينَ - , 5:53کی جگہ  ویقولون للذین آمنوا، الی آخرہ۔ پڑھ لیا اور اس کو دہرا کر صحیح نہ کیا، ایسی صورت میں نماز کا کیا حکم ہے؟

اگر دورانِ نماز یاد آجائے تو کب تک کسی قراءت کی غلطی کو درست کیا جاسکتا ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں نماز میں   وَ يَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا کے بجائے   ویقولون للذین آمنوا پڑھنے معنی میں تغیر فاحش ہوگیا ہے، اس سے نماز فاسد ہوجائے گی، البتہ تراویح کی نماز کا وقت کے اندر اعادہ واجب ہے، وقت گزرنے کے بعد اس کا اعادہ واجب نہیں ہے۔ اس پر توبہ واستغفار کیا جائے۔

باقی  نماز میں  اگر  ایسی غلطی  ہوجائے جس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے(مثلاً معنی میں تغیر فاحش ہوگیا)، پھر بعد میں کسی کے لقمہ دینے  سے یا از خود یاد آنے پر اس غلطی کی اصلاح کرلی تو  اگراسی رکعت میں اس غلطی کی اصلاح کرلی تو نماز  درست ہوجائے گی،  اعادہ لازم نہیں ہوگا  اور اگر  غلطی  کی اصلاح  نہیں کی ، یا اس رکعت کے علاوہ کسی اور رکعت میں  غلطی کی اصلاح کی تو ان دونوں صورتوں میں نماز درست نہیں ہوگی۔ خواہ یہ غلطی  واجب مقدار تلاوت  کرنے کے بعد کی ہو، البتہ اگر واجب مقدار قراءت کرلی ہو اور کوئی آیت یاد نہ آئے تو مقتدی کے لقمہ کا انتظار کیے بغیر رکوع کرلینا چاہیے۔

"قال في شرح المنیة الکبیر:"القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلك سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین".

(إمداد المفتین، ص ۳۰۳)

"وإن غیر المعنی تغیراً فاحشاً فإن قرأ: ” وعصی آدم ربه فغوی “ بنصب میم ” اٰدم “ ورفع باء ” ربه “… وما أشبه ذلك لو تعمد به یکفر، وإذا قرأ خطأً فسدت صلاته..." الخ

(الفتاوی الخانیة علی هامش الهندیة، ۱: ۱۶۸، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم …، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة".

(الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

"وفي المضمرات: قرأ في الصلاة بخطإ فاحش ثم أعاد وقرأ صحیحاً فصلاته جائزة".

(حاشیة الطحطاوي علی الدر المختار،۱: ۲۶۷ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)

"ذکر في الفوائد: لو قرأ في الصلاة بخطإفاحش ثم رجع وقرأ صحیحاً ، قال: عندي صلاته جائزة".

(الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۲، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109200782

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں