بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

ریسلنگ کرنا کیسا ہے؟


سوال

ریسلنگ کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  چند شرائط کے ساتھ  کھیل  کھیلنے کی اجازت شریعت نے دی ہے:

(1) وہ کھیل ایسا نہ ہو جس کی ممانعت قرآن یاحدیث میں آئی ہے، کیوں کہ ایسا کھیل بالاتفاق    حرام /مکروہ تحریمی ہے۔

(2) وہ کھیل ایسا نہ ہو جس میں  دین یا دنیا کا فائدہ نہ  ہو۔

(3)ایسا کھیل، جس کا فائدہ تو ہو لیکن اس کا نقصان بنسبت فائدہ کے زیادہ ہو،اگر ایسا کھیل اللہ پاک کی یاد سے غافل کردے، ایساکھیل بھی منع ہے،

(4)اگر کھیل ایسا ہے ،جس میں منفعت تو ہے لیکن نیت لہو لعب کی  ہے،ایسا کھیل کھیلنا مکروہ ہے۔

(5)اگرایسا کھیل ہے، جس میں  منفعت کی نیت  کے ساتھ ساتھ  اللہ پاک کی یاد سے غافل بھی نہیں کررہا،دینی یا دنیاوی فائدہ بھی ہو، ایسا کھیل کھیلنا جائز ہوگا۔

ریسلنگ کہتے ہیں کہ کسی شخص کو(طے شدہ قواعد کے تحت)   طاقت اور مہارت کے ساتھ جکڑ کر زمین پر گرا کر  اس پر حاوی ہونے کی کوشش کرنا  ،  اس کھیل     میں کئی خرابیاں اور مفاسد ہیں ، اس کھیل میں اس قدر انہماک اور مشغولیت رہتی  ہے کہ عبادات چھوٹ جاتی ہیں،اس کھیل میں دونوں حریف ایک دوسرے کو جسمانی طور پر ایذا اور تکلیف  پہنچاتے ہیں،  عموما جسمانی لڑائی پر مشتمل کھیل کے کھلاڑی ستر کھلا رکھتے ہیں،ان  تمام وجوہات کی وجہ سے  ایسا کھیل کھیلنا جائز نہیں ہے۔

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

" فالضابط في هذا الباب - عند مشايخنا - المستفاد من أصولهم وأقوالهم أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح مفيد في المعاش ولا المعاد حرام، أومكروه تحريماً. وهذا أمر مجمع عليه في الأمة، متفق عليه بين الأئمة. وما كان فيه غرض ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي عنه من الكتاب أو السنة (كما في النردشير) كان حراماً، أو مكروهاً تحريماً، وألغيت تلك المصلحة والغرض المعارضتها للنهي المأثور، حكماً بأن ضرره أعظم من نفعه ... وهذا أيضاً متفق عليه بين الأئمة، غير أنه لم يثبت النهي عند بعضهم فجوزه ورخص فيه، وثبت عند غيره فحرمه وكرهه، وذلك كالشطرنج، فإن النهي الوارد فيه متكلم فيه من جهة الرواية والنقل، فثبت عند الحنفية وعامة الفقهاء فكرهوه، ولم يثبت عند ابن المسيب وابن المغفل وفي رواية عند الشافعي أيضاً، فأباحوه .وأما ما لم يرد فيه النهي عن الشارع، وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي على نوعین:الأول : ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه، ومفاسده أغلب من منافعه، وأنه من اشتغل به ألهاه عن ذكر الله وحده وعن الصلوات والمساجد، التحق ذلك بالمنهي عنه، لاشتراكالعلة، فكان حراماً أو مكروهاً . والثاني : ما ليس كذلك، فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة، وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد يرتقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه."

(باب تحریم اللعب بالنردشیر ج: 4، ص: 381، ط: دار إحیاء تراث الإسلامی)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144601102526

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں