بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

5لاکھ قرض لے کرقسطوں میں ساڑھےچھ لاکھ واپس کرنےاوروعدۂ بیع کاحکم


سوال

1۔میں نےاپناکاروباربڑھانے کےلیے ایک بندے سے پانچ لاکھ روپے لیے  اور میں نے اس کے ساتھ یہ طے کیاکہ میں آپ کوساڑھے چھ لاکھ روپے واپس کروں گا،لیکن یک مشت نہیں بلکہ قسط وار واپس کروں گا،مثلاً ہر مہینے 20ہزارروپے واپس کروں گا،توکیاایساکرناجائز ہے؟

2۔ہماری دکان میں بائک ،پنکھااور موبائل وغیرہ موجود نہیں ہوتے،جب گاہک آتاہےتوہم اس کوکہتے ہیں کہ یہ چیز ابھی توہمارے پاس موجود نہیں ہے،البتہ ہم آپ کے ساتھ وعدہ کرتے ہیں کہ فلاں وقت تک ہم مارکیٹ سے خرید کرآپ کواتنی رقم میں دے دیں گے،اورہم گاہک سے ایڈوانس میں کچھ رقم بھی لے لیتے ہیں،پھرمارکیٹ سے وہ چیز لے کراس کوبیچ دیتے ہیں، توکیاایسا معاملہ کرنا جائز ہے؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں سائل کامذکورہ شخص سے 5 لاکھ روپے لے کرپھر قسط وار اس کوساڑھے چھ لاکھ واپس کرناسود ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے،اس قسم کےسودی لین دین سے اجتناب لازم ہے۔

2۔صورتِ مسئولہ میں سائل  کی دکان پرجب کوئی چیزنہیں ہوتی اوروہ گاہک کویہ کہتے ہیں  کہ فی الحال تویہ چیزہمارے پاس نہیں ہے ،البتہ ہم آپ کے ساتھ وعدہ کرتے ہیں کہ فلاں وقت تک ہم آپ کےلیے مارکیٹ سےیہ چیز خرید کراتنی رقم میں آپ کوفروخت کردیں گے،اور گاہک سے کچھ رقم ایڈوانس میں لے لیتے ہیں، پھر مارکیٹ سے وہ چیز لے کرگاہک کوفروخت کرتےہیں ،تو ایسامعاملہ کرنا شرعًا جائز ہے،لیکن یہ یاد رہے کہ یہ وعدۂ بیع ( وعدۂ فروخت ) ہے ،بیع نہیں ہے،لہٰذا اگر بعد میں گاہک مذکورہ چیزنہ لیناچاہے توسائل کو اُسے مجبورکرنے کاحق نہیں ہوگا،اگر سائل بعد میں گاہک کو مذکورہ چیز لینے پر مجبور کرتاہوتو پھر یہ معاملہ جائز نہیں،نیز جوقیمت  سائل نے گاہک کووعدۂ بیع کے وقت بتائی ہے کہ میں خرید کر اتنی رقم میں آپ کوفروخت کردوں گا،تویہ حتمی قیمت نہیں ہے،بلکہ بعد میں سائل اور گاہک دونوں کویہ اختیار ہوگاکہ  اگروہ  دونوں  باہمی رضامندی سے چاہیں تو اسی قیمت کوبرقراررکھیں اور اگر چاہیں تو   نئی قیمت طے کریں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

"وَأَحَلَّ اللهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبا."(البقرۃ : 275)

ترجمہ:"اللہ تعالیٰ نے خریدوفروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔"

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

"يَمْحَقُ اللهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ. "(البقرۃ : 276)

ترجمہ:"اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔"

سنن ترمذی میں ہے۔

"عن ابن مسعود قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الرباحر، ومؤكله، وشاهديه، وكاتبه»."

(أبواب البیوع، باب ما جاء فی أکل الربا، 504/3، ط: شرکة مکتبة و مطبعة مصطفی البابي الحلبي)

ترجمہ:"حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سود لینے اور دینے والے، سودی حساب لکھنے والے اور سودی شہادت دینے والے سب پر لعنت فرمائی ہے۔"

الموسوعۃ الفقہیۃ  الکویتیۃ میں ہے:

"وأما من وعد بفعل شيء مباح أو مندوب إليه، فينبغي عليه أن ينجز وعده، حيث إن الوفاء بالوعد من مكارم الأخلاق وخصال الإيمان، وقد أثنى المولى جل وعلا على من صدق وعده فامتدح إسماعيل عليه السلام بقوله: {إنه كان صادق الوعد} ، وكفى به مدحا، وبما خالفه ذما."

(حرف الواو، الوفاء بالوعد، 74/44، ط: دارالسلاسل)

امدادالفتاوٰی میں ہے:

"اس میں  دو مقام قابلِ جواب ہیں، ایک یہ کہ زید  و عمرومیں جوگفتگو ہوئی یہ وعدۂ  محضہ ہے ،کسی کے ذمہ بحکمِ عقد  لازم نہیں ، اگر زید کے منگانے کے بعد بھی عمرو انکار کردےتو زید کومجبور کرنے کاحق نہیں، پس اگرعرف و عادت میں   عمرو کومجبور سمجھاجاتا ہوتو یہ معاملہ حرام ہے،ورنہ حلال ۔اسی طرح عمرو کواور مثل عمروکے زید کو بھی یہ اختیار حاصل ہےکہ وعدۂ بیع پر قائم رہنے کی صورت میں  منافع کی مقدار میں تغیر وتبدل کردیں، یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ایک ماہ ادھا کی صورت میں پانچ روپے سیکڑہ نفع کاٹھہراتھا۔۔۔الخ۔"

(کتاب  البیوع، 39،40/3، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)

وفیہ ایضًا:

"اول توصرف روپیہ کے ساتھ درخواستِ خریداری بھیجنے سے بیع نہیں ہوتی، اس لیے بائع ومشتری ہر دو کونفسِ عقد یاوعدۂ نرخِ خاص سے انکار وامتناع جائز ہے۔"  

(کتاب  البیوع، 22/3، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)

احسن الفتاوٰی میں ہے:

"لفظ "دے گا" بیع نہیں بلکہ وعدۂ بیع ہے،لہٰذا مالک نے سیب پکنے کے بعد دے دیےتو یہ بیع بالتعاطی ہوگئی۔"

(کتاب البیوع، 508/6، ط: سعید )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100770

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں