بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صلح ہونے کا بعد زیادہ رقم کا مطالبہ کرنا


سوال

میں نے اور میرے دوست نے مل کرقسطوں پر ایک پلاٹ لیا ، جس کا مقصد کاروبار کرنا تھا ، جس کی قیمت تھی پچاس لاکھ،  شرائط یہ تھیں کہ ہم تین سالوں میں کل رقم ادا کریں گے،  پچیس لاکھ ایک دوست اور پچیس لاکھ دوسرا، اور تین سالوں بعد پلاٹ بیچ کر نفع یا نقصان آپس میں برابر تقسیم کریں گے، اس کے علاوہ کوئی شرط ہمارے درمیان نہیں تھی،  ہم نے پلاٹ لیا پہلی قسط بیس لاکھ دونو ں نے ادا کی،  دس لاکھ ایک نے دیے اور دس دوسرے نے،  دو ہفتوں بعد دوست اپنا وعدہ توڑ رہا ہے اور کہتا ہے کہ میں معاہدہ ختم کرنا چاہتا ہوں،  اب یا  تو اس پلاٹ کو بیچتے ہیں اور نفع اور نقصان برابر تقسیم کر دیتے ہیں،  یا تم پلاٹ رکھ لو، میں نے پلاٹ اکیلے خریدنے کا ارادہ کیا، دوست اب کہہ رہا ہے کہ جس دن وعدہ توڑا تھا اس دن پلاٹ کی قیمت بڑھ گئی تھی، تم نے اکیلے رکھنے کا فیصلہ کیا اس لیے معاہدہ توڑنے والے دن جو بیس لاکھ پر نفع بنتا ہے وہ مجھے دو، میں پلاٹ اب اکیلا چلا رہا ہوں ، دوست نے وعدہ بھی توڑ دیا،  کیا مجھے دوست کے دس لاکھ کے علاوہ اس دن جو پرافٹ بنتا تھا وہ بھی دوست کو دینا ہے، جس دن دوست نے معاہدہ توڑا تھا میں نے دوست کی رقم اس کو دے دی تھی، لیکن اگر میں پلاٹ بیچتا ہیں اور اکیلا چلاتا ہوں کیا پھر بھی معاہدہ ٹوٹنے والے دن جو ہمیں پلاٹ کی قیمت مل رہی تھی اس حساب سے منافع دوست کو دینا چاہیے؟  ابھی پلاٹ میرے پاس ہے اور میں باقی اقساط اکیلے دوں گا۔

معاہدہ توڑتے وقت   سائل کے دوست نے 10 لاکھ روپے کےعوض میں اپنے حصہ سے دست بردار ہونے کا فیصلہ کیا، اور یہ فیصلہ دونوں کے باہمی رضامندی سے ہوے، سائل نے 10 لاکھ اپنے دوست کو دئیے، پھر بعد میں دوست نفع مانگنے لگا۔

جواب

صورت مسئولہ میں   جب سائل کے دوست نے مذکورہ معاہدہ توڑنے کا فیصلہ کیا اور  سائل کو یہ اختیار دیا کہ وہ 10 لاکھ کی عوض میں اپنے حصہ سے دست بردار ہو جائے گا،پھر جب سائل نے 10 لاکھ روپے دے کر دوست کا حصہ رکھ لیا اور دونوں اس پر راضی تھے تو یہ  ان کی  آپس میں صلح تھی، صلح کے مکمل ہونے کے بعد سائل کے دوست کے لیے 10 لاکھ سے  زیادہ  کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔

«الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیۃ»  میں ہے:

"«قالوا: ‌إذا ‌تم ‌الصلح على الوجه المطلوب دخل بدل الصلح في ملك المدعي، و سقطت دعواه المصالح عنها، فلايقبل منه الادعاء بها ثانيًا، و لايملك المدعى عليه استرداد بدل الصلح الذي دفعه للمدعي. 

و جاء في م (1556) من مجلة الأحكام العدلية: ‌إذا ‌تم ‌الصلح فليس لواحد من الطرفين - فقط - الرجوع، و يملك المدعي بالصلح بدله، و لايبقى له حق في الدعوى، و ليس للمدعى عليه - أيضًا - استرداد بدل الصلح.

و أصل ذلك: أن الصلح من العقود اللازمة، فلذلك لايملك أحد العاقدين فسخه، أو الرجوع عنه بعد تمامه. أما إذا لم يتم فلا حكم له ولا أثر يترتب عليه»."

(کتاب الصلح،باب آثار الصلح،27/ 355،  ط: دارالسلاسل)

«مجلۃ الاحکام العدلیۃ » میں ہے:

"«‌‌المادة: ‌إذا ‌تم ‌الصلح فليس لواحد من الطرفين فقط الرجوع»."

(‌‌الكتاب الثاني عشر الصلح والإبراء‌‌، الباب الرابع في بيان الصلح والإبراء، ص:303،  ط: نور محمد، كراچي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100564

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں