بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ربیع الثانی 1446ھ 11 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث کی تقسیم مع چند امور کی وضاحت کے ساتھ


سوال

 کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں میں کہ ایک شخص فوت ہو گیا اس کے ورثاء میں ایک بیوہ،  دو بیٹے اور چھے بیٹیاں ہیں وراثت کی تفصیل یہ ہے،  کہ دس مرلہ زمین مرحوم نے خود خریدی تھی اور اس پر دو کمرے بھی تعمیر کرائے تھے اس وقت تک مرحوم خود کماتے تھے اور نفع ونقصان کے مالک خود تھے پھر اس کے بعد تمام معاملات بیٹوں کے ہاتھ میں آ گئے ، پھر دس مرلہ زمین اور اس پر چھ کمرے مع برآمدا اور بیت الخلاء وغیرہ بیٹوں نے ہی تعمیر کرائے، اس وقت مرحوم بذات خود کوئی کام نہیں کرتے تھےاور ان کو جیب خرچ بھی بیٹے دیتے تھے اور شادی بیاہ اور دیگر معاملات بھی بیٹے خود سنبھالتے تھے اور دیگر معاملات میں بھی والد مرحوم بیٹوں کے ساتھ شریک نہیں تھے اوربعدوالی 10 مرلہ زمین خریدنا اور تعمیر بھی بیٹوں نے خود ہی کرائی تھی اسی طرح مکانات کی تعمیر میں دونوں بھائیوں کی بیویوں کا زیور دو تولے سات ماشے شامل کیا گیا تھا اب سوال یہ ہے ہے کہ مرحوم کی وراثت کتنے مال اور جائیداد میں جاری ہوگی صرف اسی دس مرلے میں جو مرحوم نے خود خریدے تھے یا سارے بیس مرلوں اور مکانات میں جو بیٹوں نے خریدے اور تعمیر کرائے اسی طرح عورتوں نے اپنا زیور جو مکانات کی تعمیر میں لگایا اس کا کیا حکم ہے؟

واضح رہے کہ یہ ان کے جہیز کا زیور تھا اسی طرح ایک اور بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ والد مرحوم اپنے چھوٹے بیٹے کی مٹھائی کی دکان پر بیٹھا کرتے تھے لیکن یہ بیٹھنا بطور شرکت کے نہ تھا بلکہ صرف بیٹے کے تعاون کے لیے تھا ورنہ دکان کے نفع و نقصان اور دیگر معاملات کا بیٹا خود ذمہ دار تھا اور کھانا وغیرہ دونوں بیٹوں اور والدین کا اکٹھے ایک ہی جگہ ایک ہی گھر پکتا تھا اور بڑا بھائی بھی اپنی کمائی چھوٹے بھائی کے ہاتھ میں دیتا تھا اور تمام معاملات کو چھوٹا بھائی ہی سنبھالتا تھا اور دونوں بھائیوں کی رہائش وغیرہ اور کھانا تو مشترکہ تھا لیکن بڑا بھائی اخراجات کی مد میں معمولی رقم دیتا تھا اور دیگر اضافی اخراجات سے خود کو بری الذمہ قرار دیتا تھا تو اب اس ساری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے حکم شرعی سے آگاہ فرمائیں کہ مذکورہ وراثت ورثاء میں کیسے تقسیم ہو گی ۔

تنقیح :

1: بیٹوں نے جودس مرلے زمین خرید کراس میں تعمیرات کی ہیں وہ والدکے کاروبارکی آمدنی سے کی ہے ؟

2:دونوں بھائیوں کی بیویوں کاجوزیورشامل ہے وہ کس نیت سے شامل کی گئی تھی؟ قرض ؟ شراکت ؟ یاکوئی اورنیت؟

3: چھوٹے بیٹےکی مٹھائی کی دکان ذاتی رقم سے تھی یاوہ والدکے کاروبارسے تھی؟

جواب تنقیح:

1 دونوں بھائیوں نے بعد والی دس مرلہ زمین اور تعمیر اپنی رقم سے ہی کی تھی نہ کہ والد کی رقم سے۔

2۔ دونوں عورتوں سے زیور بطور قرض لیا گیا تھا۔

3۔ ابتداء میں دوکان والد صاحب اور چھوٹے بیٹے کی مشترک تھی لیکن بعد میں والد صاحب نے دکان بالکلیہ چھوٹے بیٹے کے حوالے کر دی تھی اور خود اس سے بالکل کنارہ کش ہوگئے تھے۔

جواب

1:مذکورہ پہلی صورت میں اگر بیٹوں نے اپنا الگ کاروبار اپنے پیسوں سے شروع کیا تھا،تو اس كي دو و صورتیں هيں، اگر کہ یہ تعمیرات والد کے ساتھ بطور تعاون  (چھ کمرے مع برآمدہ وغیرہ) کیے تھےتو ایسی صورت میں یہ تعمیراتی اخراجات تبرع شمار ہوگا،تعمیر کرنے والوں کو کچھ نہيں ملے گا،اور اگر بطور تعاون کے نہ ہو  تو پھر تعمیر کا خرچہ ملے گا، يعني   گھر بنانے میں جتنی رقم خرچ ہوئی ہے اتنی رقم ملے گی،اور يه پورا  گھر والد کے ترکہ میں تقسیم ہو گا اور تمام وارثوں کو شریعت کے مطابق حصہ ملے گا۔

اور اگر یہ کاروبار والد صاحب کا تھا، مذکورہ دو بیٹوں نے اس کو آگے بڑھایا تھا، تو یہ  تمام کے تمام  کاروبار والد  کی  ترکہ شمار ہوگا، اب اگر ان پیسوں سے یہ تعمیرات کی تھيں،  تو یہ تعمیرات بھی والد صاحب کی ملکیت شمار ہوگی،اور اس صورت ميں بھی پورے کے پورا گھر بطور ترکہ شرعی حساب سے تقسیم کرنا ضروری ہے۔

نیز بیٹوں نے جو زمین اپنے پیسوں سے خریدی تھی،وہ تو بلا شبہ بیٹو ں کی ملکیت شمار ہوگی،لیکن اگر والد کے کاروبار کو آگے بڑھایا تھا،اور والد کے کاروبار  کے پیسوں سےیہ زمین خریدی گئی ،تو پھریہ زمین بھی والد کا ترکہ  شمار ہوگی۔

2: مذکورہ عورتوں سے جو زیور بطور قرض لیا گیا، ان کو زیورات یا ان کی موجودہ قیمت  بھی مرحوم کے بعد کل  متروکہ مال سے اد اکیا جائے گا۔

3:دکان جب باپ بیٹے کے درمیان  مشترک  تھی، تو دونوں اپنے حصے کے بقدر مالک ہیں، مرحوم کا حصہ مرحوم کا ترکہ شمار ہوکر  ورثاء میں تقسیم ہوگا۔

باقی  مرحوم کی جائیداد منقولہ وغیر منقولہ   کو  ورثاء  میں   تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے  کہ مرحوم  کی جائیداد سے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد،اگر مرحوم کے ذمہ پر قرض ہے تو قرض   ادا کرنے کے بعد اوراگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو باقی مال کے ایک تہائی میں نافذ کرنے کے بعد    ،  باقی کل جائیدادِ  کو (80) حصوں میں تقسیم کرکے(10) حصے مرحوم کےبیوہ  کو (14)   حصے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کواور(7) حصے ہر ایک بیٹی کو  ملے گا۔

طریقہ  تقسیم یہ ہے:

مرحوم:8/ 80

بیوہبیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
17
101414777777

فیصد کے اعتبار سے  مرحوم کے بیوہ کو 12.5فیصداور ہر ایک بیٹے 17.5فیصد اور ہر ایک بیٹی کو 8.75 فیصد ملے گا۔

 فتاوی تنقیح الحامدیہ  میں ہے۔

"(سئل) في رجل بنى بماله لنفسه قصرا في دار أبيه بإذنه ثم مات أبوه عنه وعن ورثة غيره فهل يكون القصر لبانيه ويكون كالمستعير؟

(الجواب) : نعم كما صرح بذلك في حاشية الأشباه من الوقف عند قوله كل من بنى في أرض غيره بأمره فهو لمالكها إلخ ومسألة ‌العمارة ‌كثيرة ‌ذكرها في الفصول العمادية والفصولين وغيرها وعبارة المحشي بعد قوله ويكون كالمستعير فيكلف قلعه متى شاء."

﴿تنقیح الحامدیه،  کتاب العاریة ، ج:2، ص:81 ،  ط:دار المعرفة ﴾

"درر الحكام شرح غرر الأحكام "میں ہے:

"أن الديون تقضى بأمثالها."

(الكتاب الرابع عشر الدعوى، (المادة 1613) الدعوى هي طلب أحد حقه من آخر في حضور القاضي، ج:2 ص:261، ط: دار إحياء الكتب العربية)

سراجی میں ہے:

"قال علماؤنا رحمهم الله: تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبتة: الأول: يبدأ بتكفينه وتجهيزه من غيره تبذير ولاتقتير، ثم تقضى ديونه من جميع ما بقي من ماله، ثم تنفذ وصاياه من ثلث مابقي بعد الدين، ثم يقسم الباقي بين ورثته بالكتاب والسنة وإجماع الأمة."

(السراجي في الميراث، ص:5، 6، ط:مكتبة البشرى)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100216

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں