بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پانچ اور نو سال کی بچیوں کی پرورش کا حق


سوال

ایک عورت کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے، اس کی دو بیٹیاں ہیں، ایک 9 سال کی ہے اور دوسری پانچ سال کی ہے، شوہر کے انتقال کے بعد کچھ عرصہ یہ اپنے شوہر کے والدین کے پاس ہی رہی اور جب اس سے دوسری شادی کے متعلق پوچھا جاتا تو کہتی کہ میں دوسری شادی نہیں کروں گی۔

پھر اب کچھ عرصہ گزرا ہے کہ یہ شوہر کے والدین کے پاس سے  بغیر پوچھے اپنے والدین کے پاس رہنے لگی ہے اور کچھ عرصہ سے اس کا دوسری جگہ نکاح کا ارادہ بھی بن گیا ہے، وہ اپنی بچیوں کو اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے اور 9 سالہ بچی اس کے ساتھ رہنے پر رضامند بھی ہے لیکن شوہر کے والدین اس عورت کے دوسری جگہ نکاح کرنے کی وجہ سے بچیوں کو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں، اگر چہ یہ دوسری جگہ نکاح بھی شوہر کے قبیلے کے آدمی سے کر رہی ہے، اور بچیوں کو بعد البلوغ بھی اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں، کیا ایسی صورت میں ان بچیوں کی پرورش و تربیت کا حق اس کی ماں کو ہی ہو گا؟ یا شوہر کے والدین وغیرہ اسے اپنی پرورش میں لینے کا حق رکھتے ہیں؟

جواب

اگر کسی شخص کا انتقال ہو جائے اور اس کی بچیاں موجود ہوں تو اُن بچیوں کی پرورش کا حق نو سال کی عمر ہونے تک اُس کی ماں کو حاصل ہوتا ہے، نو سال کی عمر ہو جانے کے بعد بچی کی پرورش کا حق اُس بچی کے دادا کو ہوتا ہے، اگر دادا موجود نہ ہوں تو بچی کے چچا کو یہ حق حاصل ہو گا۔

اگر مرحوم کی بیوہ کسی ایسے شخص سے نکاح کر لیتی ہے جو بچیوں کے لیے غیر محرم ہو تو نو سال کی عمر سے کم بچی کی پرورش کا حق بھی ختم ہو جائے گا اور یہ حق بچی کی سگی نانی کی طرف منتقل ہو جائے گا، پھر  دادی، سگی خالہ،  سگی پھوپھی بالترتیب بچی کی پرورش کا حق منتقل ہوگا۔

نکاح کی صورت میں ماں کے لیے  حقِ پرورش اُسی صورت میں باقی رہے گا جب وہ ایسے مرد سے نکاح کرے جو بچیوں کے لیے محرم ہو مثلاً اُن کا چچا، محض شوہر کی قوم میں نکاح کرنا حقِ پرورش کے باقی رہنے کے لیے کافی نہیں ہو گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جو بچی نو سال کی ہو چکی ہے اب اُس کی پرورش کا حق اس کے دادا کو ہے، دادا نہ ہو تو اس کے چچا کو یہ حق حاصل ہے، اور جو بچی پانچ سال کی ہے اس کی پرورش کا حق اس کی ماں کو حاصل ہے، ہاں! اگر وہ کسی غیر مرد سے شادی کر لیتی ہے تو اس کا یہ حق ختم ہو کر اس کی نانی پھر دادی پھر خالہ پھر پھوپھی کو بالترتیب منتقل ہو جائے گا۔

بدائع میں ہے:

"و منها أن لاتكون ذات زوج أجنبي من الصغير فإن كانت فلا حق لها في الحضانة، وأصله ما روى عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن امرأة أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله إن ابني هذا كان بطني له وعاء وحجري له حواء وثديي له سقاء ويزعم أبوه أن ينزعه مني فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أنت أحق به منه ما لم تنكحي».

و روي عن سعيد بن المسيب أنه قال: طلق عمر -رضي الله عنه- أم ابنه عاصم -رضي الله عنه- فلقيها ومعها الصبي فنازعها و ارتفعا إلى أبي بكر الصديق -رضي الله عنه- فقضى أبو بكر - رضي الله عنه - بعاصم بن عمر - رضي الله عنهم - لأمه ما لم يشب أو تتزوج وقال: إن ريحها وفراشها خير له حتى يشب أو تتزوج، وذلك بمحضر من الصحابة - رضي الله عنهم - ولأن الصغير يلحقه الجفاء والمذلة من قبل الأب؛ لأنه يبغضه لغيرته وينظر إليه نظر المغشي عليه من الموت و يقتر عليه النفقة فيتضرر به حتى لو تزوجت بذي رحم محرم من الصبي لايسقط حقها في الحضانة كالجدة إذا تزوجت بجد الصبي أو الأم تزوجت بعم الصبي أنه لايلحقه الجفاء منهما لوجود المانع من ذلك وهو القرابة الباعثة على الشفقة، ولو مات عنها زوجها أو أبانها عاد حقها في الحضانة؛ لأن المانع قد زال فيزول المنع ويعود حقها وتكون هي أولى ممن هي أبعد منها كما كانت."

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/ 42) ط: دار الكتب العلمية)

شامی میں ہے:

"(قوله: بغير محرم) أي من جهة الرحم فلو كان محرما غير رحم كالعم رضاعا، أو رحما من النسب محرما من الرضاع كابن عمه نسبا هو عمه رضاعا فهو كالأجنبي."

(رد المحتار ط الحلبي (3/ 557)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم ... وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة، وإن علت، فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها، وإن علت، كذا في فتح القدير، فإن ماتت أو تزوجت فالأخت لأب وأم، فإن ماتت أو تزوجت فالأخت لأم، فإن ماتت أوتزوجت فبنت الأخت لأب وأم، فإن ماتت أو تزوجت فبنت الأخت لأم لا تختلف الرواية في ترتيب هذه الجملة إنما اختلفت الروايات بعد هذا في الخالة والأخت لأب ففي رواية كتاب النكاح: الأخت لأب أولى من الخالة وفي رواية كتاب الطلاق: الخالة أولى وبنات الأخوات لأب وأم أو لأم أولى من الخالات في قولهم واختلفت الروايات في بنات الأخت لأب مع الخالة والصحيح أن الخالة أولى وأولى الخالات الخالة لأب وأم، ثم الخالة لأم، ثم الخالة لأب، وبنات الإخوة أولى من العمات والترتيب في العمات على نحو ما قلنا في الخالات كذا في فتاوى قاضي خان، ثم يدفع إلى خالة الأم لأب وأم، ثم لأم، ثم لأب، ثم إلى عماتها على هذا الترتيب.

وخالة الأم أولى من خالة الأب عندنا، ثم خالات الأب وعماته على هذا الترتيب كذا في فتح القدير. والأصل في ذلك أن هذه الولاية تستفاد من قبل الأمهات فكانت جهة الأم مقدمة على جهة الأب كذا في الاختيار شرح المختار.

وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب، ثم أبو الأب، وإن علا، ثم لأخ الأب وأم، ثم لأب، ثم ابن الأخ لأب وأم، ثم ابن الأخ لأب وكذا من سفل منهم، ثم العم لأب وأم، ثم لأب"

(کتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، ج:1، ص:541، ط:دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100626

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں