بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پانچ گھرانوں پر مشتمل گاؤں میں جمعہ کی نماز کا حکم


سوال

1. صوبہ بلوچستان میں ایک ضلع سوراب ہے ،جس کی ایک تحصیل گدر  ہے، جس میں ایک بازار ہے جو کہ سوراب شہر سے تقریبا پچیس تیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، اِس میں   تقریبا چار یا پانچ گھرانے  رہائش پذیر ہیں، باقی دوسرے لوگ دور دراز سے صبح بازار آتے ہیں اور شام کو واپس جاتے ہیں، جیسے عام طور پر گاؤں دیہات میں ماحول ہوتا ہے، اس بازار میں دو مسجدیں ہیں، ایک چھوٹی، ایک بڑی، بڑی مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کی جاتی ہے۔

 اور اس مسجد میں کبھی جماعت کی نماز نہیں بھی ہوتی، مثلاً   عشاء اور فجر میں،  بعض علماء اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہاں  جمعہ کی نماز نہیں ہوتی اور وہ جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے سوراب شہر چلے جاتے ہیں، کیا ان پر جمعہ واجب ہے یا نہیں اور  گدر بازار میں نماز جمعہ ہو سکتی ہے یا نہیں؟

اسی طرح گدر بازار کے علاوہ   کچھ بستیوں میں بھی نماز جمعہ شروع کی گئی ہے جن میں پنج وقتہ نمازیں با جماعت ادا کی جاتی ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟

2. ایک آدمی مسجد کی دیوار کے بالکل ساتھ کنواں کھودتا ہے  باتھ روم کے لیے اور وہ بجری زمین ہے، جس سے نجاست مسجد والی زمین پر پھیل جاتی ہے،  کیا اس سے مسجد کی زمین ناپاک ہوگی یا نہیں اور اس شخص کا یہ عمل کیسا ہے؟

3. اگر امام نماز  میں ایک طرف سلام علیکم ورحمۃ اللہ اور دوسری طرف السلام علیکم رحمۃ اللہ  کہے تو اس سے نماز میں کچھ خلل واقع ہوگا یا نہیں؟

جواب

1. واضح رہے کہ جمعہ کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط شہر یا اس کے مضافات کا ہونا ہے، قصبہ اور قریہ کبیرہ یعنی بڑا گاؤں بھی شہر کے حکم میں داخل ہے، لہذا قصبہ اور بڑے گاؤں میں بھی جمعہ ادا کرنا درست ہے،یعنی ایسا قصبہ   جس کی آبادی تقریباً ڈھائی سے تین ہزار تک ہو اور اس میں روزمرہ ضروریات کی اشیاء کے لیے  بازار یا دکانیں  موجود ہوں اس کے برعکس قریہ صغیرہ(چھوٹا گاؤں ، چھوٹی بستی) میں ،جہاں مذکورہ بالا شرائط نہ ہوں، جمعہ کی نماز   پڑھنا جائز نہیں ہے بلکہ ایسے گاؤں کے لوگوں پر جمعہ کے دن ظہر کی نماز پڑھنا فرض ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ جمعہ اور عیدین کی نماز صرف بڑے شہر میں ہی ادا کی جاسکتی ہے۔ نیز نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی مدینہ ہی میں جمعہ قائم کیا جاتا تھا، آس پاس کے دیہاتوں میں جمعہ قائم نہیں کیا جاتا تھا، اسی طرح صحابہ کرامؓ نے فتوحات کے بعد صرف شہروں میں ہی جمعہ کے قیام کا اہتمام کیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر اجماع ہے کہ جمعہ قائم کرنے کے لیے شہر ہونا شرط ہے اور جمعہ چوں کہ شعائرِ اسلام میں سے ہے،  اس کے مناسب بھی یہی ہے کہ وہ بڑی جگہوں پر ہی قائم کیا جائے۔

  جس جگہ جمعہ کی صحت کی شرائط نہ پائی جائیں وہاں جمعہ ادا کرنا درست نہیں، لیکن اگر کسی ایسی جگہ پہلے سے جمعہ کی نماز ادا کی جارہی ہو جہاں جمعہ کی شرائط نہیں پائی جاتیں تو اسے ختم کرنے کی کوشش کی جائے،  اگر جمعہ ختم کرانے میں فتنے یا انتشار کا خوف ہو تو جمعہ ادا کرنا جائز ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں ضلع سوراب کی تحصیل  گدر کے بازار میں چوں کہ آبادی صرف چار پانچ گھرانوں پر مشتمل ہے؛ اس لیے اس بازار میں جمعہ کی نماز ادا نہیں کی جا سکتی، البتہ اگر یہاں ایک عرصہ سے جمعہ کی نماز ادا کی جارہی ہے اور اب اس کو بند کرنے میں فتنہ کا اندیشہ ہو تو اس کو جاری رکھا جا سکتا ہے، یہی حکم اس بستی کے قریب دیگر کم آبادی پر مشتمل بستیوں کا ہو گا۔

2. اگر مسجد کی دیوار کے ساتھ بیت الخلاء کے لیے کنواں کھودا جائے اور اُس کا پانی وہاں زمین میں سرایت کر جائے، لیکن مسجد کے فرش پر نجاست کے اثرات ظاہر نہ ہوتے ہوں تو مسجد کی زمین  ناپاک نہیں ہوگی، مسجد پاک ہی شمار ہو گی، تاہم مسجد کے احترام اور تقدس کا تقاضا یہ ہے کہ بیت الخلاء کو مسجد سے بالکل متصل نہ بنایا جائے؛ تاکہ بیت الخلاء کی بو مسجد میں نہ آئے، لیکن اگر نجاست مسجد کی زمین کی طرف سرایت کرتی ہے تو مسجد کی زمین ناپاک ہوجائے گی، وہاں نماز پڑھنا جائز نہیں ہوگا۔

3. سنت طریقہ یہ ہے کہ نماز پڑھنے والا (خواہ امام ہو یا منفرد)  صاف طریقہ سے "السلام علیکم ورحمۃ اللہ" کہے، اگر "السلام علیکم ورحمۃ اللہ" کے بجائے "سلام علیکم ورحمۃ اللہ" کہے تو سنت کے خلاف اور مکروہ ہو گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله هو السنة) قال في البحر: ‌وهو ‌على ‌وجه ‌الأكمل أن يقول: السلام عليكم ورحمة الله مرتين، فإن قال السلام عليكم أو السلام أو سلام عليكم أو عليكم السلام أجزأه وكان تاركا للسنة، وصرح في السراج بكراهة الأخير. اهـ. قلت: تصريحه بذلك لا ينافي كراهة غيره أيضا مما خالف السنة"

(کتاب الصلاۃ، 1/526/ سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"( ولأدائها شرائط في غير المصلي )  منها المصر هكذا في الكافي ···( ومنها السلطان ) عادلا كان أو جائرا ، هكذا في التتارخانية ··· ( ومنها وقت الظهر ) حتى لو خرج وقت الظهر في خلال الصلاة تفسد الجمعة ··· ( ومنها الخطبة قبلها ) حتى لو صلوا بلا خطبة أو خطب قبل الوقت لم يجز ، كذا في الكافي ··· ( ومنها الجماعة ) وأقلها ثلاثة سوى الإمام ، كذا في التبيين ···  ( ومنها الإذن العام ) وهو أن تفتح أبواب الجامع فيؤذن للناس كافة".

  (کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر فی صلاۃ الجمعۃ، 4 /285/دار الفكر بيروت)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  میں ہے:

"ولنا ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر جامع» ، وعن علي - رضي الله تعالى عنه - «لا جمعة ولا تشريق ولا فطر ولا أضحى إلا في مصر جامع» ، وكذا النبي صلى الله عليه وسلم «كان يقيم الجمعة بالمدينة» ، وما روي الإقامة حولها، وكذا الصحابة - رضي الله تعالى عنهم - فتحوا البلاد وما نصبوا المنابر إلا في الأمصار فكان ذلك إجماعًا منهم على أن المصر شرط؛ ولأن الظهر فريضة فلا يترك إلا بنص قاطع والنص ورد بتركها إلا الجمعة في الأمصار ولهذا لا تؤدى الجمعة في البراري؛ ولأن الجمعة من أعظم الشعائر فتختص بمكان إظهار الشعائر وهو المصر."

(کتاب الصلاۃ، فصل بيان شرائط الجمعة، 1 / 259/دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي القہستاني: تقع فرضًا في القصبات والقریٰ الکبیرۃ التي فیہ أسواق…  ولاتجوز في الصغیرۃ التي لیس فیہا قاضٍ ومنبر وخطیب کما في المضمرات"

(شامي مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ،۲/۱۳۸،ط:سعید) 

کفایت المفتی میں ہے:

’’اگر اس جگہ ایک سو برس سے جمعہ کی نماز ہوتی ہے تو اسے بند نہ کرنا چاہیے کہ اس کی بندش میں دوسرے فتن و فساد کا اندیشہ ہے، جو لوگ نہ پڑھیں ان پر اعتراض اور طعن نہ کرنا چاہیے، وہ اپنی ظہر کی نماز پڑھ لیا کریں اور جو جمعہ پڑھیں وہ جمعہ پڑھ لیا کریں۔‘‘

( کفایت المفتی، کتاب الصلاۃ، پانچواں باب ۳/ ۱۸۷ ط: دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100047

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں