بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چار تولہ سونا اور نقدی پر زکاۃ


سوال

ایک عورت ہے جس کے پاس چارتولہ سونا ہےاور دس پندرہ ہزار نقدی ہے جو کبھی والد یا شوہر نےخرچی کے طور پر دیئےہیں اور کوئی آمدنی بھی نہیں ہے۔ اس پر زکوٰۃ فرض ہے یا نہیں؟ اگر فرض ہے تو اس کے پاس پیسے نہیں ہیں کیسے زکوۃ اداکرے؟

جواب

واضح رہے کہ  اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو (نقدی یا دیگر اموالِ زکاۃ موجود نہ ہوں) تو جب تک سونا ساڑھے  سات تولہ نہ ہوجائے اس پر زکاۃ لازم نہیں ، اور اگر سونے کے ساتھ نقدی بھی موجود ہے تو سونے کی قیمت اور نقدی  ملا کر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کے برابر بنتی ہو تو ایسے  شخص پر  سال پورا ہونے پر قابلِ زکات مال کی ڈھائی فیصد زکاۃ ادا کرنا لازم ہے۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں مذکورہ عورت کے پاس اگر چار تولہ سونے کے ساتھ دس پندرہ ہزار روپے جمع ہیں   تو  سال گزرنے پر  کل مال میں سے ڈھائی فیصد زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔ 

نیز جتنی زکاۃ لازم ہو، اگر اتنی نقدی پاس موجود نہ ہو تو اس سے زکاۃ ساقط نہیں ہوگی، بلکہ سونا فروخت کر کے، یا کسی بھی طریقے سے انتظام کر کے زکاۃ ادا کی جائے۔ ہاں  تمام زکاۃیکمشت  ادا کرنا لازم نہیں، بلکہ تھوڑی تھوڑی کر کے بھی ادا کی جاسکتی ہے، البتہ اس میں زیادہ تاخیر نہ کرے۔

شامی میں ہے:

"(وقيمة العرض) للتجارة (تضم إلى الثمنين)؛ لأن الكل للتجارة وضعاً وجعلاً (و) يضم (الذهب إلى الفضة) وعكسه بجامع الثمنية (قيمة)".

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)،‌‌كتاب الزكاة، ‌‌باب زكاة المال، 2/ 303، ط: سعید)

بدائع میں ہے:

"فأما إذا كان له الصنفان جميعاً فإن لم يكن كل واحد منهما نصاباً بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم، فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا ... (ولنا) ما روي عن بكير بن عبد الله بن الأشج أنه قال: مضت السنة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بضم الذهب إلى الفضة والفضة إلى الذهب في إخراج الزكاة؛ و لأنهما مالان متحدان في المعنى الذي تعلق به وجوب الزكاة فيهما وهو الإعداد للتجارة بأصل الخلقة والثمنية، فكانا في حكم الزكاة كجنس واحد؛ ولهذا اتفق الواجب فيهما وهو ربع العشر على كل حال وإنما يتفق الواجب عند اتحاد المال.
و أما عند الاختلاف فيختلف الواجب وإذا اتحد المالان معنىً فلا يعتبر اختلاف الصورة كعروض التجارة، ولهذا يكمل نصاب كل واحد منهما بعروض التجارة ولا يعتبر اختلاف الصورة، كما إذا كان له أقل من عشرين مثقالاً وأقل من مائتي درهم وله عروض للتجارة ونقد البلد في الدراهم والدنانير سواء فإن شاء كمل به نصاب الذهب وإن شاء كمل به نصاب الفضة، وصار كالسود مع البيض، بخلاف السوائم؛ لأن الحكم هناك متعلق بالصورة والمعنى وهما مختلفان صورة ومعنى فتعذر تكميل نصاب أحدهما بالآخر."

 (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، كتاب الزكاة، باب الأثمان المطلقة وهي الذهب والفضة، فصل مقدار الواجب في زكاة الذهب، 2/ 19، الناشر: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101463

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں