بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چار ماہ کی جماعت میں قصر کریں گے یا اتمام؟


سوال

چار ماہ کی جماعت میں چار رکعت نماز پڑھ سکتے ہیں ؟

جواب

اگرجماعت  کی تشکیل کسی شہر (جیسے کراچی) یا بڑے گاؤں یا بستی  میں 15 دن یا اس سے زائد کی ہو اور وہیں کی کئی مساجد میں جانا  ہو تو اس شہر/بستی میں وہ جماعت مقیم کہلائے گی اور  پوری نماز پڑھیں گے اور اگر کئی بستیوں میں تشکیل ہو اور ہر تین دن بعد یا  کچھ دن بعد بستی تبدیل کرکے دوسری بستی یا گاؤں میں جانا پڑتا ہو جس کا نام وغیرہ بھی الگ ہو  اور مقامی حضرات کے ہاں بھی وہ بستی بالکل علیحدہ شمار ہوتی ہے تو  اس صورت میں چوں کہ جماعت  کی اقامت ایک جگہ پر 15 دن کی نہیں ہے؛ اس لیے جماعت مسافر ہوکہلائے گی اور قصر نماز پڑھیں گے۔

البتہ اگر کہیں مقیم امام کی اقتداء میں نماز پڑھنی ہو جیسا کہ عام طور پر جماعت میں ہوتا ہے تو مقیم امام کی اقتداء میں پوری نماز پڑھنی ہو گی۔

فتاوی شامی میں ہے: 

"(أو دخل بلدة ولم ينوها) أي مدة الإقامة (بل ترقب السفر) غدا أو بعده (ولو بقي) على ذلك(قوله أو نوى فيه) أي في صالح لها (قوله بموضعين مستقلين) لا فرق بين المصرين والقريتين والمصر والقرية بحر".

(باب صلاة المسافر، ج: ۲، صفحہ: ۱۲۶، ط: ایچ، ایم، سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويكفي في ذلك القصد غلبة الظن يعني إذا غلب على ظنه أنه يسافر قصر ولا يشترط فيه التيقن، كذا في التبيين...ولا يزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوما أو أكثر، كذا في الهداية. ... وكل من كان تبعا لغيره يلزمه طاعته يصير مقيما بإقامته ومسافرا بنيته وخروجه إلى السفر، كذا في محيط السرخسي فيصير الجندي مقيما في الفيافي بنية إقامة الأمير في المصر، كذا في الكافي في نواقض الوضوء الأصل أن من يمكنه الإقامة باختياره يصير مقيما بنية نفسه ومن لا يمكنه الإقامة باختياره لا يصير مقيما بنية نفسه حتى أن المرأة إذا كانت مع زوجها في السفر والرقيق مع مولاه والتلميذ مع أستاذه والأجير مع مستأجره والجندي مع أميره فهؤلاء لا يصيرون مقيمين بنية أنفسهم في ظاهر الرواية، كذا في المحيط.ثم المرأة إنما تكون تبعا للزوج إذا أوفاها مهرها المعجل وأما إذا لم يوفها فلا تكون تبعا له قبل الدخول والجندي إنما يكون تبعا للأمير إذا كان يرزق من الأمير، كذا في التبيين، أما إذا كانت أرزاقهم من أموال أنفسهم فالعبرة لنيتهم، كذا في الظهيرية".

(الباب الخامس عشر في صلاة المسافر، ج: ۱، صفحہ: ۱۳۹ و۱۴۱، ط: دارالفکر- بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100624

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں