بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سٹی ٹریڈر (CITTI TRADER) میں سرمایہ کاری کا حکم


سوال

پاکستان کی ایک کمپنی ہے، جو سٹی بلڈرز یا سٹی گروپ آف کمپنی کے نام سے ہے جو اپنی کمپنی میں سرمایاکاری کرنے پر حلال منافع دینے کا دعوی کرتی ہے، جو کہ 8 سے 12 فیصد تک ہے، مثلا ا لاکھ کی سرمایہ کرنے پر 8 سے 12 ہزار کا ماہانہ منافع دیتے ہیں اور کمپنی پراپرٹی یعنی زمین ومکان کی خریدو فروخت، اور(سٹی سٹیلز) لنٹر والا سریا، کاسٹمیٹکس، (فوٹ وئیر) کا یعنی مختلف اقسام کے جوتوں کا برینڈ ہے کمپنی ان سب چیزوں کا کاروبار کر کے 8 سے 12 فیصد منافع دینے کا دعوی کرتی ہے اور سرمایہ کاری کرتے وقت بطور ثبوت 18 ماہ کا (ایگریمنٹ)اسٹام اور چیک دیتی ہے جو چیک 18 ماہ لگاتار منافع ملنے کے بعد بینک سے اپنے اصلی رقم نکال سکتے ہیں،ایگریمنٹ 18 ماہ کا ہوتا ہے اس سے پہلے بھی اپنی اصل رقم نکلوا سکتے ہیں لیکن 10 فیصد کٹوتی کرتے ہیں ۔پوچھنا یہ ہے کہ اس قسم کی سرمایہ کاری کرنا شرعی حیثیت سے درست ہے؟

کمپنی کے معاہدے کے کاغذات ای میل کیے ہیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ کمپنی میں سرمایہ کاری کرنا درج ذیل وجوہ کی بنا پر ناجائز ہے :

شق نمبر 4 کے مطابق کمپنی 8 سے 12 فیصد نفع دینے پر معاہدہ کرتی ہے لیکن اس میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ کمپنی سرمایہ کی رقم پر یہ نفع دے رہی ہے  یا حاصل ہونے والے منافع میں سے یہ نفع دے رہی ہے۔ شرعی لحاظ سے اگر سرمایہ کی رقم پر نفع دیا جارہا ہو تو یہ سود ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے (اور شق نمبر 9 سے اسی کی تائید ہوتی ہے جیسا آگے آرہا ہے) اور اگر حاصل ہونے والے منافع پر نفع دیا جارہا ہو تو نفع کیا تناسب  طے ہونا لازم ہے،  8 سے 12 فیصد کی قید لگانے سے نفع مجہول ہوجاتا ہے جس وجہ سے شرکت فاسد ہوجاتی ہے۔

شق نمبر 9 کے مطابق  اتوار کے علاوہ سرکاری چھٹیوں کے دنوں کا نفع سرمایہ کار کو نہیں ملے گا۔ اس شق سے معلوم ہوتا ہے کہ نفع کا معیار پراڈکٹ بیچ کر حاصل ہونے والے منافع نہیں ہیں بلکہ سرمایہ کار کی رقم کے بدلےمیں ملنے والا نفع ہے جو کہ ناجائز ہے اس لیے کہ جائز شرکت کا مدار پراڈکٹ بیچ کر حاصل ہونے والے نفع پر ہوتا ہے، اس کا تعلق  سرمایہ کاری پر گزرنے والے وقت سے نہیں ہوتا۔

شق نمبر 10 کے مطابق 6 ماہ بعد (اور ایک سال سے پہلے) رقم نکالنے پر 10 فیصد کٹوتی ہوگی جبکہ ایک سال بعد رقم نکالنے پر کٹوتی نہیں ہوگی۔   مخصوص مدت سے پہلے سرمایہ نکالنے پر کٹوتی کرنا مالی تعزیر ہے جو کہ ناجائز ہے۔

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"وأن يكون الربح معلوم القدر، فإن كان مجهولًا تفسد الشركة وأن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة لا معينًا فإن عينا عشرةً أو مائةً أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً، كذا في البدائع."

(کتاب الشرکۃ باب اول ج نمبر 2 ص نمبر 302،دار الفکر) 

فتاوی شامی میں ہے:

"وأفاد في البزازية: أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدةً؛ لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي ... وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ."

( کتاب الحدود، باب التعزیر، ج: 4، صفحہ: 61، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100103

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں