بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر کسی کی مالی استطاعت حج یا بچوں کی شادی میں سے کسی ایک کی ہے تو وہ کیا کرے؟


سوال

1.ایک مرد نے نابالغ لڑکی کے ساتھ التقاء ختانین کےبغیر دخول کیا، اب وہ چاہتا ہے کہ اسی لڑکی کی بہن سے شادی کرے تو آیا وہ شادی کرسکتا ہے یا نہیں؟

2.ایک شخص کے تین بیٹے ہیں جوکہ مدرسے میں  پڑھ رہے ہیں، ان کی عمریں بالترتیب 20، 28، 29 سال ہیں، اس شخص کی ملکیت میں اتنا مال ہے کہ جس سے وہ حج کرسکے یا ان تین بیٹوں میں سے کسی ایک بیٹے کی شادی کراسکے، اب یہ شخص حج کرے یا بیٹوں میں کسی ایک کی شادی کرائے؟

جواب

1. صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص پر سچے دل سے توبہ و استغفار لازم ہے تاہم وہ اس لڑکی کی بہن سے نکاح کرسکتا ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الخلاصة: وطئ أخت امرأته لا تحرم عليه امرأته."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، 3/ 34، ط: سعيد)

2.اگر اس شخص کی ملکیت میں حج کے  ایام میں اتنی رقم موجود ہے جس سے بآسانی حج کرسکے تو اس پر حج کرنا فرض ہے، اسے چاہیے کہ پہلے حج کرے اس کے بعد حسب استطاعت بیٹوں کی شادیاں کرائے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه معه ألف وخاف العزوبة إن كان قبل خروج أهل بلده فله التزوج ولو وقته لزمه الحج.

(قوله: وفي الأشباه) المسألة منقولة عن أبي حنيفة في تقديم الحج على التزوج، والتفصيل المذكور ذكره صاحب الهداية في التجنيس، وذكرها في الهداية مطلقة، واستشهد بها على أن الحج على الفور عنده ومقتضاه تقديم الحج على التزوج، وإن كان واجبا عند التوقان وهو صريح ما في العناية مع أنه حينئذ من الحوائج الأصلية ولذا اعترضه ابن كمال باشا في شرحه على الهداية بأنه حال التوقان مقدم على الحج اتفاقا لأن في تركه أمرين ترك الفرض والوقوع في الزنا وجواب أبي حنيفة في غير حال التوقان اهـ أي في غير حال تحققه الزنا لأنه لو تحققه فرض التزوج أما لو خافه فالتزوج واجب لا فرض فيقدم الحج الفرض عليه فافهم."

(كتاب الحج، 2/ 462، ط: سعيد)

غنیۃ الناسک میں ہے:

" تنبيه: فالحاصل أن الحوائج الأصلية إذا كانت موجودة له، لايجب الحج، فلاتباع للحج، بل لابد من مال فاضل عنها، وإن لم تكن موجودة عنده، وهو محتاج إليها، يقدم الحج عليها إن حضر وقت خروج أهل بلده، فلايصرف المال إليها، بل يحج به، كذا أفاده في الكبير."

(باب شرائط الحج، ص: 20، ط: إدارة القرآن)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411100662

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں