بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بت یا مجسمے کی تصویر لے کر میڈیا پرشئیر کرنا


سوال

ہاتھ سے بنائے گئے بت یا مجسمے کی تصویر کشی کرنا اور اسے میڈیا پر شائع کرنا کیسا ہے ؟ کیا اس سے کوئی فرق پڑتا ہے یا کر سکتے ہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ہاتھ سے بنائے گئے بت یا مجسمے کی تصویر کشی کرناجاندار کی تصویر کی حکایت ہے،اور میڈیا پر شائع کرنا گویا اُس کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا ہے،حدیثِ پاک میں آتاہے کہ گناہوں کی طرف راہ نمائی کرنے والا، اس راہ نمائی کی وجہ سے گناہ میں پڑ جانے والے کے ساتھ وبال میں شریک ہوتا ہے،اور یہ کام ایک مسلمان کے شایانِ شان نہیں ہے،اور ہر وہ کام جو اللہ پاک کی ناراضگی کو متوجہ کرے اُس سے اجتناب کرنالازم ہے،لہذا بت یا مجسمے کی تصویر لینا اور  اُسے میڈیا پر شائع کرنا ناجائز ہے۔

حدیث شریف میں  ہے:

"عن أبي طلحة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا تدخل الملائكة بيتاً فيه صورة»".

 (صحيح البخاري: كتاب بدء الخلق، رقم الحدیث:3226،  ص: 385، ط: دار ابن الجوزي)

حدیثِ پاک میں ہے:

"عن عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة المصورون»".

(صحيح البخاري: كتاب اللباس، باب عذاب المصورين، رقم:5950،  ص: 463، ط: دار ابن الجوزي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ".

 ( كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، ج: 1، ص: 647، ط: سعید )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100003

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں