بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چوالیس سال کی عمر میں قضائے عمری کا حکم


سوال

میری عمرچوالیس سال ہے اور میں ساری زندگی کا بے نمازی ہوں۔قضاۓ عمری کے بارے میں آپ کے فتاوی پڑھ چکا ہوں اور طریقہ کار کا بھی پتا چل گیا ہے۔لیکن زندگی کا تو ویسے بھی ایک پل کا نہیں پتا اور اگر میں آج سے ہی قضاۓ عمری پڑھنا شروع کر دوں،تو تقریبا  اٹھائیس سال میں قضا نمازیں پوری ہوں گی۔اگر روزانہ ایک دن کی نمازوں کے ساتھ ایک دن کی قضا نمازیں بھی ادا کروں تو۔میرے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جب مسلمان عاقل بالغ ہوتا ہے تو اس پر نماز فرض ہوتی ہے، اور کسی وجہ سے فرض نماز فوت ہو جائے تو اس کا ادا کرنا ذمہ میں رہتا ہے، یعنی اس کی قضاء لازم ہوتی ہے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں زندگی کے چوالیس سال ضائع ہوجانے کے بعد بھی جب اللہ نے آپ کے دل میں فکرِ آخرت کا احساس ڈالا ہے، تو آپ اس کی خوب قدر کریں اور بقیہ زندگی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلّم کی ہدایت کے مطابق گزارنے کا اہتمام کریں، اور ماضی کی کوتاہیوں پر توبہ و استغفار کرتے رہیں، باقی جو نمازیں چھوٹ گئیں آپ کو چاہیے کہ فوراً ان کی  قضائے عمری شروع کردیں ، نیز خاص طور پہ دعا کریں کہ اللہ تعالی آپ کو اتنی صحت اور مہلت عطا کرے کہ آپ کی قضاء نمازیں پوری ہوجائیں؛ قضاء نمازوں کو  چاہیں تو اسی ترتیب سے ادا کریں جو آسان ہے اور آپ نے اس کا ذکر کیا کہ  روزانہ کے  پنج وقتہ فرائض کے ساتھ ایک دن کی نمازوں کی(وتر سمیت)  قضاء، اور کوشش کر کے دو دو تین تین نمازوں کی قضاء کر لیں  تا کہ فوت شدہ نمازوں کی قضاء جلدی مکمل ہو سکے؛ بالخصوص جن ایام میں فرصت زیادہ ملےان ایام میں زیادہ مقدار میں پڑھیں، ساتھ ہی وصیت بھی لکھ کر چھوڑیں کہ اب میرے ذمہ اتنی نمازیں رہ گئیں، اگر میں ادا کیے بغیر دنیا سے رخصت ہو جاؤں تو میرے مال کے ایک تہائی سے ان کا فدیہ ادا کیا جائے،( جو کہ ہر فرض اور وتر کے بدلے ایک ایک فدیہ بنتا ہے)، اللہ کی ذات سے پوری امید ہے کہ اس طرح کرنے سے اللہ تعالٰی اس پر مؤاخذہ نہیں کریں گے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة(وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله)..

[قال ابن عابدين:] (قوله وعليه صلوات فائتة إلخ) أي بأن كان يقدر على أدائها ولو بالإيماء، فيلزمه الإيصاء بها وإلا فلا يلزمه وإن قلت، بأن كانت دون ست صلوات، لقوله - عليه الصلاة والسلام - «فإن لم يستطع فالله أحق بقبول العذر منه» وكذا حكم الصوم في رمضان إن أفطر فيه المسافر والمريض وماتا قبل الإقامة والصحة، وتمامه في الإمداد. مطلب في إسقاط الصلاة عن الميت.
(قوله يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار... [إلي أن قال] (قوله نصف صاع من بر) ... أو قيمته، وهي أفضل عندنا لإسراعها بسد حاجة الفقير إمداد... (قوله وكذا حكم الوتر) لأنه فرض عملي عنده خلافا لهما ط. ..(قوله وإنما يعطي من ثلث ماله) أي فلو زادت الوصية على الثلث لا يلزم الولي إخراج الزائد إلا بإجازة الورثة.."

(باب قضاء الفوائت،  2 /72 - 73 ، ط: سعيد)

و فیہ أیضاً:

"فإن قلت: قد أوجبتم الفدية في الصلاة عند الإيصاء بها من العاجز عنها، فقد أجريتم فيها النيابة بالمال مع عدم النص، ولا يمكن أن يكون ذلك بالقياس على الصوم؛ لأن ما خالف القياس فعليه غيره لا يقاس. قلت: ثبوت الفدية في الصوم يحتمل أن يكون معللا بالعجز وأن لا يكون، فباعتبار تعليله به يصح قياس الصلاة عليه لوجود العلة فيهما، وباعتبار عدمه لا يصح، فلما حصل الشك في العلة قلنا بوجوب الفدية في الصلاة احتياطا؛ لأنها إن لم تجزه تكون حسنة ماحية لسيئة، فالقول بالوجوب أحوط؛ ولذا قال محمد تجزئه إن شاء الله تعالى، ولو كان بطريق القياس لما علقه بالمشيئة كما في سائر الأحكام الثابتة بالقياس، هذا خلاصة ما أوضحناه في حواشينا على شرح المنار للشارح."

(كتاب الصلوة، 1 /356، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408102640

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں