ہمارے پاس سونا ہے جو میری بیوی کو شادی میں ملا ہے جوکہ 44 گرام ہے، چاندی موجود نہیں اور نقدی بھی موجود نہیں ہے،تنخواہ ملتی ہے جس سے گھر کا خرچہ چلتا ہے، پوچھنا یہ ہے اس سونے پر کتنی زکوۃ بنے گی؟
اگر کسی کی ملکیت میں صرف سوناہو اس کے علاوہ نقد، چاندی یا مالِ تجارت کچھ بھی نہ ہو تو زکوۃ لازم ہونے کےلیے ساڑھے سات تولہ سونا ہونا ضروری ہے، لیکن اگر سونے کے ساتھ ساتھ بنیادی ضرورت سے زائد نقدی، چاندی یا مالِ تجارت میں سے بھی کچھ ملکیت میں ہو تو ساڑھے سات تولہ کا اعتبار نہیں، بلکہ اگر ان مملوکہ اشیاء کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچ جائے تو زکات ادا کرنا لازم ہوگا۔ بشرطیکہ اتنا قرض ذمے میں نہ ہو جسے منہا کرنے کے بعد نصاب کے بقدر مالیت باقی نہ رہے۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کی بیوی کے پاس صرف ۴۴ گرام سونا ہے جو نصاب سے کم ہے اور اس کے علاوہ چاندی یا نقد رقم وغیرہ کچھ بھی نہیں ہے تو اس پر ایسی صورت میں زکاۃ ادا کرنا واجب نہیں ہے۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
"فأما إذا كان له الصنفان جميعا فإن لم يكن كل واحد منهما نصابا بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا."
(كتاب الزكاة، فصل: مقدار الواجب في زكاة الذهب، ج: ۲، صفحہ: ۳۴۴، ط: المكتبة التوفيقية، مصر)
فتاوى ہنديہ میں ہے:
"وتضم قيمة العروض إلى الثمنين والذهب إلى الفضة قيمة كذا في الكنز...لكن يجب أن يكون التقويم بما هو أنفع للفقراء قدرا ورواجا."
(كتاب الزكاة، الباب الثالث، الفصل الثاني في العروض، ج:۱، صفحہ: 179، ط: دارالفکر- بيروت)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"تجب في كل مائتي درهم خمسة دراهم، وفي كل عشرين مثقال ذهب نصف مثقال."
(كتاب الزكاة، الباب الثالث في زكاة الذهب والفضة ولعروض، الفصل الثاني في العروض، ج:1، ص:178، ط:رشيديه)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509100275
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن