بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خلع کے عوض دیے گئے مہر سے زائد کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے؟


سوال

میں نے اپنی چچا زاد لڑکی سے شادی کی جو کہ بہت ہی زیادہ نخرے اٹھانے کے بعد چچا نے رخصتی کی یعنی کہ پندرہ سال پاکستان میں انتظار کرتا رہا، پھر چچا نے شرط لگا دی کہ اٹلی آئے گا تو لڑکی دوں گا حال آں کہ نکاح ہو چکا تھا جب میں دورہ حدیث والے سال میں تھا اور نکاح نامہ میں اس طرح کی کوئی شرط نہیں تھی، پھر میں نے کہا: چلو خیر ہے،  چچا ہے، مان لو، پھر انہوں نے ویزا بھیجا جو کہ بہت ہی مشکل اور طویل عرصہ انتظار کے بعد لگا، پھر میں اٹلی چلا گیا، پھر وہاں جاتے ہی چچا نے مجھے بہت بے عزت کیا، میرے والد اور والدہ کا غصہ مجھ پر نکالا پرانی کسی بات پر، پھر حضرت چچا نے رخصتی نہیں کی، وہاں بھی آٹھ مہینے گزرنے کے بعد رخصتی کی، پھر انہوں نے میرے وہاں کے کاغذات نہیں بنوائے، جس کی وجہ سے مجھے وہاں 6 مہینے قید کر دیا گیا اور پھر مجھے ڈی پورٹ کر دیا گیا، میں نے اپنی بیوی کے ساتھ 4 مہینے گزارے تقریبًا، اب میں پاکستان میں ہوں اور بیوی اٹلی میں ہے، میں کہہ رہا ہوں کہ پاکستان بھیج دو میری بیوی کو، مگر چچا اب نہیں مان رہا، الٹا گالیاں نکالیں ہمیں، اور میری بیوی مجھے کہتی ہے: جیسا میرے ابو کہیں گے ویسا ہی کروں گی،  یعنی کہ وہ بھی اپنے باپ کی طرف داری کر رہی ہے،  اب وہ مجھ سے طلاق مانگ رہے ہیں اور مجھے دھمکی بھی دی ہے، تو حضرت مجھے بتائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؛ کیوں کہ میں نے تقریبًا 16 سال ان کا انتظار کیا اور جیل بھی ان ہی کی خاطر کاٹی مگر ان کو احساس نہیں، بجائے اس کے کہ وہ میری مدد کرتے کہ جیل کاٹی بڑی تکلیف میں تھا مگر وہ الٹا طلاق مانگ رہے ہیں،  لیکن میں نے کہا کہ خلع لو مجھ سے اور جو 16 سال انتظار کروایا اور جو جیل کاٹی اس سب کا حساب لگاؤ اور خلع لے لو،  تو حضرت کیا اس طرح کرنا میرے لیے شرعًا درست ہے؟ میں اپنی بیوی کو اب بھی رکھنے کے لیے تیار ہوں اور میں نے کہا ان سے کہ میں اسے خوش رکھوں گا ان شاء اللہ، مگر وہ ہی ہیں جو رشتہ توڑنے پر تلے ہوئے ہیں، اب آپ مجھے بتائیں کہ میرے لیے ان سے پیسے لے کر خلع دینا کیسا ہے؟ بہت انتظار کیا 30 سال عمر ہو گئی ہے!

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر نباہ کی کوئی صورت نہیں بن رہی اور معاملہ خلع تک جا پہنچا ہے تو سائل کی ذکر کردہ تفصیلات کے مطابق چوں کہ زیادتی لڑکی اور اس کے والدین کی طرف سے ہے اس وجہ سے خلع کے بدلے آپ اپنی بیوی کو دیا ہوا مہر  واپس لے سکتے ہیں اور مہر کے علاوہ مزید رقم  کا مطالبہ بھی کرسکتے ہیں، لیکن  مہر کی رقم  سے زائد لینا ناپسندیدہ ہے۔ 

الدر المختار مع حاشیتہ ردالمحتار  (3 / 445):

"(وكره) تحريمًا (أخذ شيء) ويلحق به الإبراء عما لها عليه (إن نشز وإن نشزت لا) ولو منه نشوز أيضًا ولو بأكثر مما أعطاها على الأوجه فتح  وصحح الشمني كراهة الزيادة وتعبير الملتقى لا بأس به يفيد أنها تنزيهية وبه يحصل التوفيق.
(قوله: وكره تحريما أخذ شيء) أي قليلًا أو كثيرًا  والحق أن الأخذ إذا كان النشوز منه حرام قطعًا؛ لقوله تعالى: {فلا تأخذوا منه شيئًا} النساء 20 إلا أنه إن أخذ ملكه بسبب خبيث وتمامه في الفتح لكن نقل في البحر عن الدر المنثور للسيوطي أخرج ابن جرير عن ابن زيد في الآية قال ثم رخص بعده فقال: { فإن خفتم ألا يقيما حدود الله فلا جناح عليهما فيما افتدت به } [البقرة 229] قال: فنسخت هذه تلك ا هـ  وهو يقتضي حل الأخذ مطلقا إذا رضيت ا هـ أي سواء كان النشوز منه أو منها أو منهما لكن فيه أنه ذكر في البحر أولا عن الفتح أن الآية الأولى فيما إذا كان النشوز منه فقط والثانية فيما إذا لم يكن منه فلا تعارض بينهما وأنهما لو تعارضتا فحرمة الأخذ بلا حق ثابت بالإجماع وبقوله تعالى { ولا تمسكوهن ضرارا لتعتدوا } البقرة 231 وإمساكها لا لرغبة بل إضرارا لأخذ ما لها في مقابلة خلاصها منه مخالف للدليل القطعي فافهم."

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144108201353

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں