بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مجلس واحد کی تین طلاقوں کو انتظامی مسئلہ قرار دینا درست نہیں ہے


سوال

 دورِ فاروقی میں مجلسِ واحد کی تینوں طلاقوں کو نافذ قرار دینا ایک انتظامی فیصلہ تھا یا ایک شرعی قطعی حکم؟ اگر اسلامی مملکت کے سربراہِ کی حیثیت سے ایک مجلس کی تینوں طلاقوں کے تین شمار ہونے کا سیدنا حضرت عمر کا فیصلہ نافذ ہوا، اور فقہاء ؒو مجتہدینؒ اور مفتیانِ کِرام اس کی روشنی میں فتوٰی صادر فرماتے ہیں، تو کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے موجودہ عائلی قوانین کے مطابق اکٹھی لکھوائی یا دی گئی تینوں طلاقوں میں سے صرف ایک کے نافذ ہونے کا فتوٰی دیا جا سکتا ہے؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں مجلس واحد کی تین طلاقوں  کا فیصلہ ایک شرعی فیصلہ ہے، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور سے چلا  آ رہا ہے۔ اس کو  حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کا انتظامی اور تعزیری فیصلہ کہنا درست نہیں ہے؛  لہذا  کسی بھی انسان یا اسلامی مملکت کے سربراہ کو  شرعًا یہ اجازت نہیں ہےکہ وہ ایک اجماعی اور متفقہ طور پر مسئلے کو انتظامی طور پر چھیڑ چھاڑ  کرے۔

حقیقت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے ہی تین طلاقیں تین شمار ہوتی تھیں،چنانچہ سنن دار قطنی میں واقعہ مذکورہے کہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دینے کے بعد فرمایاتھا کہ اگر میں نے اپنے نانا سے یہ نہ سنا ہوتا کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو اکھٹی تین طلاقیں دی ہوں یا تین طہروں میں تین طلاقیں دی ہوں تو وہ عورت اس کے لیے حلال نہیں ہوگی یہاں تک وہ دوسرے شوہر سے شادی کرلے ،تو میں اس سے رجوع کرلیتا۔

جن  روایات میں اس بات کا تذکرہ ملتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں تین طلاقیں ایک طلاق شمار ہوتی تھیں ان کا صحیح مطلب اور محمل یہ ہے کہ :دور نبوی اور دور صدیقی میں لوگوں کی دیانت کا معار بلند تھا،اس دور میں اگر کوئی شخص ایک مجلس میں اپنی بیوی کو کہتا کہ تمہیں طلاق ہے،تمہیں طلاق ہے،تمہیں طلاق ہے،اور وہ بعد والی دو طلاقوں سے تاکید کی نیت بیان کرتا تھا تو اس کی بات کو تسلیم کرکے ایک طلاق کا فیصلہ دیا جاتا تھا،دور فاروقی میں جب دیانت کے معیار میں کمی آگئی اور لوگ کثرت کے ساتھ اکٹھی تین طلاقیں دینے لگے اور تین طلاقیں دے کر ایک طلاق کی نیت کا دعوی کرنے لگے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نےتاکید کی نیت والی بات قبول کرنے سے منع فرما دیا،اور اس پر تمام صحابہ کا اجماع ہوگیا،چناچہ یہی مذہب جمہور صحابہ،تابعین،ائمہ کرام کا مسلک ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال: أخبرني عروة بن الزبير، أن عائشة، أخبرته: أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن رفاعة طلقني فبت طلاقي، وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته»وقال الليث: حدثني نافع، قال: كان ابن عمر، إذا سئل عمن طلق ثلاثا، قال: «لو طلقت مرة أو مرتين، فإن النبي صلى الله عليه وسلم أمرني بهذا، فإن طلقتها ثلاثا حرمت حتى تنكح زوجا غيرك»".

(صحیح البخاری،   باب من أجاز طلاق الثلاث، ج: ۷، ص: ۴۲و۴۳، رقم الحدیث: ۵۲۶۰،و۵۲۵۴،  ط: دار طوق النجاة (مصورة عن السلطانية بإضافة ترقيم ترقيم محمد فؤاد عبد الباقي)

وفیہ ایضا:

"حدنا أحمد بن محمد بن زياد القطان, نا إبراهيم بن محمد, نا إبراهيم بن محمد بن الهيثم صاحب الطعام, نا محمد بن حميد, نا سلمة بن الفضل, عن عمرو بن أبي قيس, عن إبراهيم بن عبد الأعلى, عن سويد بن غفلة, قال: كانت عائشة الخثعمية عند الحسن بن علي بن أبي طالب رضي الله عنه, فلما أصيب علي وبويع الحسن بالخلافة, قالت: لتهنك الخلافة يا أمير المؤمنين, فقال: يقتل علي وتظهرين الشماتة اذهبي فأنت طالق ثلاثا, قال: فتلفعت نساجها وقعدت حتى انقضت عدتها وبعث إليها بعشرة آلاف متعة وبقية بقي لها من صداقها, فقالت: متاع قليل من حبيب مفارق, فلما بلغه قولها بكى وقال: لولا أني سمعت جدي, أو حدثني أبي, أنه سمع جدي يقول: «أيما رجل طلق امرأته ثلاثا مبهمة أو ثلاثا عند الإقراء لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره» لراجعتها".

حدنا علي بن محمد بن عبيد الحافظ , نا محمد بن شاذان [ص:57] الجوهري , نا معلى بن منصور , نا شعيب بن رزيق , أن عطاء الخراساني حدثهم , عن الحسن , قال: نا عبد الله بن عمر , أنه طلق امرأته تطليقة وهي حائض ثم أراد أن يتبعها بتطليقتين أخراوين عند القرئين فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: «يا ابن عمر ما هكذا أمرك الله إنك قد أخطأت السنة، والسنة أن تستقبل الطهر فيطلق لكل قروء» , قال: فأمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم فراجعتها , ثم قال: «إذا هي طهرت فطلق عند ذلك أو أمسك» , فقلت: يا رسول الله رأيت لو أني طلقتها ثلاثا كان يحل لي أن أراجعها؟ , قال: «لا كانت تبين منك وتكون معصية."

(سنن الدارقطن، كتاب الطلاق والخلع والإيلاء وغيره، ج: ۵، ص: ۵۵و ۵۶، رقم الحدیث: ۳۹۷۴،و۳۹۷۲، ط: كتاب الطلاق والخلع والإيلاء وغيره) 

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ابن عباس، قال: "كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر، وسنتين من خلافة عمر، طلاق الثلاث واحدة، فقال عمر بن الخطاب: إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة، فلو أمضيناه عليهم، فأمضاه عليهم ."

(کتاب الطلاق،باب طلاق الثلاث،ج:2،ص:1099،ط:مطبعہ عیسی البابی الحلبی)

فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"الخامس دعوى أنه ورد في صورة خاصة فقال بن سريج وغيره يشبه أن يكون ورد في تكرير اللفظ كأن يقول أنت طالق أنت طالق أنت طالق وكانوا أولا على سلامة صدورهم يقبل منهم أنهم أرادوا التأكيد فلما كثر الناس في زمن عمر وكثر فيهم الخداع ونحوه مما يمنع قبول من ادعى التأكيد حمل عمر اللفظ على ظاهر التكرار فأمضاه عليهم وهذا الجواب ارتضاه القرطبي وقواه بقول عمر إن الناس استعجلوا في أمر كانت لهم فيه أناة وكذا قال النووي إن هذا أصح الأجوبة الخ."

(کتاب الطلاق،باب من جوز الطلاق الثلاث،ج:9،ص:364،ط:دار المعرفۃ)

سنن نسائی میں ہے:

"أخبرنا سليمان بن داود، عن ابن وهب، قال: أخبرني مخرمة، عن أبيه، قال: سمعت محمود بن لبيد، قال: أخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم عن رجل طلق امرأته ثلاث تطليقات جميعا، فقام غضبانا ثم قال: «أيلعب بكتاب الله وأنا بين أظهركم؟» حتى قام رجل وقال: يا رسول الله، ألا أقتله؟."

(کتاب الطلاق،الثلاث المجموعۃ وما فیہ من التغلیظ،ج:6،ص:142،ط:مکتب المطبوعات الاسلامیہ -حلب)

شرح معانی الآثار میں ہے:

"حدثنا إبراهيم بن مرزوق قال: ثنا أبو حذيفة قال: ثنا سفيان , عن الأعمش , عن مالك بن الحارث قال: جاء رجل إلى ابن عباس فقال: إن عمي طلق امرأته ثلاثا , فقال: «إن عمك عصى الله فأتمه الله وأطاع الشيطان فلم يجعل له مخرجا» . فقلت: كيف ترى في رجل يحلها له؟ فقال «من يخادع الله يخادعه."

(کتاب الطلاق،باب الرجل یطلق امراتہ ثلاثا معا،ج:3،ص:57،ط:دار عالم الکتب)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100500

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں