بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہ کرنے پر تین سال روزے اور جرمانے کو معلق کرنا


سوال

ایک بندہ کسی گناہ کا ارتکاب کرتا تھا ،آخر  اس گناہ سے تنگ آکر اس نے خود ہی کہا کہ اگر میں یہ کام پھر سے کروں تو میں تین سال روزے رکھوں گا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ دوں گا ، اور اگر میں یہ روزے نہ رکھوں اور جرمانہ ادا نہ کروں تو  کافر ہوں گا ، اب وہ کہتا ہے کہ وہ اس گناہ کو پھر سے چالیس بار سے زیادہ کرچکاہے اور تین سال روزوں اور ایک لاکھ جرمانہ نہیں دے سکتا ۔کیا یہ کافر ہوا؟ یہ بندہ کیا کرے ،کس طریقے سے بری ہوگا ؟

جواب

1- کافر تو نہیں ہوا، مسلمان ہی ہے،تاہم اس طرح کی گفتگو سے احتراز کرنا چاہیے۔

2- مذکورہ شخص کا یہ کہنا کہ: "اگر میں یہ کام پھر سے کروں تو میں تین سال روزے رکھوں گا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ دوں گا"  نذر ہے اور اس کا پورا کرنا اس پر لازم ہے، اگر نہیں کرے گا تو گناہ گار ہو گا، اور بری ہونے کا حل بھی یہی ہے کہ تین سال کے روزے رکھے اور ایک لاکھ روپے صدقہ کرے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے: 

"(ولو نذر صوم الأيام المنهية أو) صوم هذه (السنة صح) مطلقًا على المختار، وفرقوا بين النذر والشروع فيها بأن نفس الشروع معصية، ونفس النذر طاعة فصح (و) لكنه (أفطر) الأيام المنهية  (وجوبًا) تحاميًا عن المعصية (وقضاها) إسقاطًا للواجب (وإن صامها خرج عن العهدة) مع الحرمة، وهذا إذا نذر قبل الأيام المنهية فلو بعدها لم ينقض شيئًا.
وإنما يلزمه باقي السنة على ما هو الصواب، وكذا الحكم لو نكر السنة أو شرط التتابع فيفطرها، لكنه يقضيها هنا متتابعةً، ويعيد لو أفطر يومًا بخلاف المعينة، ولو لم يشترط التتابع يقضي خمسة وثلاثين ولايجزيه صوم الخمسة في هذه الصورة".

(کتاب الصوم، فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم، ج: ۲، صفحہ: ۴۳۳، ط: ایچ، ایم، سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

"ولو قال: لله علي أن أصوم يومين أو ثلاثة أو عشرة، لزمه ذلك ويعين وقتًا يؤدي فيه، فإن شاء فرق، وإن شاء تابع، إلا أن ينوي التتابع عند النذر فحينئذٍ يلزمه متتابعًا، فإن نوى فيه التتابع، وأفطر يومًا فيه أو حاضت المرأة في مدة الصوم استأنف، واستأنفت، كذا في السراج الوهاج. ولو أوجب على نفسه متفرقًا فصام متتابعًا أجزأه، كذا في فتاوى قاضي خان". 

وفیہ ایضاً:

"ولو قال: لله علي صوم سنة، ولم يعين يصوم سنة بالأهلة، ويقضي خمسة وثلاثين يومًا ثلاثين يومًا لرمضان وخمسة أيام قضاءً عن يوم الفطر والنحر، وأيام التشريق، ولو قال: لله علي صوم سنة متتابعة، فهو كقوله: لله علي صوم هذه السنة بعينها، لايلزمه قضاء شهر رمضان؛ لأن السنة المتتابعة لاتخلو عن شهر رمضان، كذا في الخلاصة".

(الباب السادس في النذر، ج: ۱، صفحہ: ۲۰۹ ،۲۱۰، ط: دار الفکر- بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102741

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں