بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

تین دن تاخیر سے آنے کی وجہ سے ایک دن کی تنخواہ کی کٹوتی کا حکم


سوال

 میں ایک پرائیویٹ دینی ادارے میں معلم کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہا ہوں، صبح 8 حاضر ہونا پڑتا ہے،پورے مہینے میں ٹوٹل 60 منٹ کی رعایت دی گئی ہے، 60 منٹ تاخیر مکمل ہونے کے بعد 3 دن لیٹ ہونے کی صورت میں (چاہے وہ ایک ایک منٹ کی تاخیر کیوں نہ ہو) پورے ایک دن کے پیسے کٹتے ہیں، آیا مذکورہ قانون شریعت کی رو سے جائز ہے یا نہیں؟ 

جواب

 اگر کوئی ادارہ یا  کمپنی یہ ضابطہ بناتی ہے کہ تین دن لیٹ جانے کی وجہ سے ایک دن کی تنخواہ کٹ جائے گی، تو  یہ ضابطہ شرعاً درست نہیں، تین دن تاخیر سے آنے پر  پورے ایک دن کی تنخواہ کاٹنا جائز نہیں ؛ اس لیے ملازم نے جتنا وقت دیا ہے اتنے وقت کی تنخواہ کا وہ مستحق ہے، اور جتنا وقت دیر سے آیا ہے اتنے ہی وقت کی تنخواہ کاٹنے کی حق دار ہے۔

      البحر الرائق میں ہے:

"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".

(فصل فی التعزیر، ج:5، ص:41، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"والأجرة إنما تكون ‌في ‌مقابلة ‌العمل."

(مطلب أنفق على معتدة الغير،156/3،ط:ايچ ايم سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101665

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں