1-میری بیوہ بہن کا انتقال ہوا ،نہ کوئی اولاد ہے، نہ والدین ہیں، البتہ 3 بھائی اور 4 بہنیں ہیں، ترکہ میں 1 مکان، کچھ سونے کے زیورات اور کچھ نقد رقم چھوڑی ہے، ورثاء میں تقسیم کیسے ہوگی؟
2- ان کی شوہر نے زندگی میں وصیت ظاہر کی تھی کہ یہ مدرسہ کے نام ہو جائے، یعنی جب تک میری بیوی زندہ ہے تو اس کا اور بیوی کے مرنے کے بعد مدرسہ کے نام ہو جائے لیکن اپنی زندگی میں مدرسہ کے نام نہیں کیا تھا،اور میری بہن کی شوہر نے گھر اپنی زندگی میں بیوی کے نام کر دیا تھا، تو کیا وصیت کی خواہش ظاہر کرنے سے وصیت نافذ کرنا لازم ہوتا ہے ؟
3- بہن کی ایک نند بھی جو کہ شادی شدہ ہے میراث کی حق دار ہوگی ؟
1- صورتِ مسئولہ میں مرحومہ کےترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحومہ کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین (کفن و دفن )کے اخراجات نکالنے کے بعد ،اگر میت کے ذمّے قرض ہو تو اس کو کل ترکہ سے ادا کرنے کے بعد ،اوراگر میت نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو باقی ترکہ کے ایک تہائی میں سے نافذ کرنے کے بعد،باقی تمام منقولہ ترکہ و غیر منقولہ کو 10 حصوں میں تقسیم کر کے ہر ایک بھائی کو 2/2 حصے، اور ہر ایک بہن کو ایک/ایک حصے ملیں گا ۔
صورت تقسیم یہ ہے:
میت-----10
بھائی | بھائی | بھائی | بہن | بہن | بہن | بہن |
2 | 2 | 2 | 1 | 1 | 1 | 1 |
یعنی فیصد کے اعتبار سے ہر ایک بھائی کو 20 فیصد اور ہر ایک بہن کو 10 فیصد ملے گا۔
2-مذکورہ مکان اگر مرحوم کے ترکہ کا ایک تہائی ہو، تو مرحوم شوہر کی وصیت کے مطابق مدرسہ کو دیا جاۓ گا اور اگر مذکورہ مکان کل ترکہ کے ایک تہائی سے زائد ہو، تو ایک تہائی تک وصیت پر عمل کیا جائے گا، اور اس سے زائد ورثاء کا حق ہوگا، البتہ اگر تمام ورثاء عاقل بالغ ہیں، اور مرحوم کی وصیت کے مطابق مذکورہ مکان مدرسہ کو دینا چاہیں تو اس کی گنجائش ہے۔
3-آپ کی مرحومہ بہن کی نند کو اپنے مرحوم بھائی کے میراث میں سے حصے ملے گا البتہ آپ کے مرحومہ بہن کی میراث میں حصے نہیں ملے گا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(و تجوز بالثلث للأجنبى) عند عدم المانع (و إن لم يجز الوارث ذالك لا الزيا د ة عليه الاّ أن تجيز ورثته بعد موته)."
( كتاب الوصايا:ج:6،ص:650،ط: سعید)
فقط و الله اعلم
فتوی نمبر : 144408102411
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن