بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین بھائی اور دو بہنوں میں ترکہ کی تقسیم


سوال

ہمارا دیہات میں ایک گھر تھا جو کہ تقریبًا 43 مرلہ کا ہے،   جب وہ گھر ہمارے والد صاحب کے حصہ میں آیا تھا بھائیوں کی طرف سے تو یہ گھر کی جگہ اور کچھ کچےمکان تھے اور ہم تین بھائی اور دو ہماری بہنیں ہیں اور تینوں بھائی کا مشترکہ کاروبار تھا،  پھر ہم نے اس گھر کو دوبارہ تعمیر کیا جو اب انیس لاکھ  پچاس ہزار (1950000) کا  بکا ہے، اب اس میں ہماری بہنوں کا حصہ صرف اس جگہ میں ہوگا جو اس وقت والد صاحب کو ملی تھی یا دوبارہ مکان بنانے کے بعد اب جس رقم کے ساتھ بکی ہے اس رقم کے لحاظ سے تقسیم ہوگی؟ اور کتنا حصہ ہوگا بہنوں کا؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں  مرحوم والد کو  حصہ میں ملنے والی زمین اور مکان کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ : اگر بھائیوں نے بہنوں کی اجازت سے پرانے مکان گرائے ہیں اور اس پر نیا مکان اپنے لیے تعمیر کیا ہے تو  ایسی صورت میں  اب  اس مکان کی  تعمیر کا  خرچہ بھائیوں کو ملے گا، اور باقی کل مالیت سب بہن بھائیوں میں ان کے حصوں کے بقدر  تقسیم ہو گی۔  اور اگر بہنوں سے اجازت لیے بغیر بھائیوں نے مکان سب  (بہن بھائیوں) کے لیے تعمیر کیا ہے تو ایسی صورت میں یہ بھائیوں  کی طرف سے تبرع و احسان ہوگا، اور تعمیر پر  لگائی گئی رقم انہیں نہیں ملے گی۔ اور اگر  اجازت کے بغیر بھائیوں نے  اپنے لیے مکان تعمیر کیا ہے(سب شرکاء)  کے لیے نہیں بنایا تو بھائیوں کو اس تعمیر کے بدلےصرف  ملبے کی قیمت ملے گی ،اور  بقیہ کل مالیت ورثاء میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کی جائے گی۔

باقی  مرحوم کے ترکہ کی تقسم  کا طریقہ یہ ہے کہ  سب سے پہلےمرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کسی کا کوئی قرض ہو تو  اسے ادا کرنے کے بعد، اگر مرحومنے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی مال میں سے نافذ کرنے کے بعد، باقی کل جائیداد منقولہ وغیر منقولہکو   8حصوں میں تقسیم کر  کے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو 2/ حصے ،  اور مرحوم کی ہر ایک  بیٹی کو 1/ حصہ ملے گا۔

یعنی:فیصد کے اعتبار سے100(سو روپے) میں سے 25 (پچیس) روپے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو،   اور12/5روپےمرحوم کی  ہر ایک بیٹی  کوملیں گے۔

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"إذا عمر أحد الشريكين الملك المشترك ففي ذلك احتمالات أربعة: ...الاحتمال الثاني - إذا عمر أحد الشريكين المال المشترك للشركة بدون إذن الشريك كان متبرعًا ...الاحتمال الرابع - إذا عمر أحد الشريكين المال المشترك بدون إذن شريكه على أن يكون ما عمره لنفسه فتكون التعميرات المذكورة ملكًا له وللشريك الذي بنى و أنشأ أن يرفع ما عمره من المرمة الغير المستهلكة. انظر شرح المادة (529) ما لم يكن رفعها مضرًّا بالأرض ففي هذا الحال يمنع من رفعها."

(درر الحكام في شرح مجلة الأحكام، ج:  3 ، صفحہ:  314،  ط:  دار الجيل)

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144206200006

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں