بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تین بار کہنا طلاق ہے


سوال

 مجھےبیوی اور سسر نےباربار جھوٹا بولا جس  کی وجہ سے میں جذباتی ہو گیا اور غصہ اتنا کیا کہ آنکھوں کے آگے اندھیرا ہو گیا ،مجبور ہو کر جب کوئی بات نہیں مان رہے تھے تو ایک کی نیت کر کے تین کی گنتی کر کے تینوں(سسر،چچااورچچی) کو اشارہ کر کے" طلاق ہے ،طلاق ہے،طلاق ہے "کہا،بیوی موجود تھی،  تینوں کوہاتھ سے الگ الگ اشارہ کیا تھااور زبان سے کہا تھا، گواہوں میں سے ایک فریق کہتا ہے کہ میں نے تینوں سے بعد میں پوچھا بھی تھا کہ تینوں نے  سن لیا؟ لیکن یہ گواہ والی بات مجھے یاد نہیں ہے ،بیوی کو میں نے پہلے سے کہا ہوا تھا کہ اگر کسی وجہ سے حالات بگڑ گئے تو جب تک میں تمہاری طرف  متوجہ نہ ہوں وہ حکم تمہارے لیے نہ ہو گا، مجھے صحیح تفصیل سے آگاہ کیا جائےکہ طلاق ایک ہوئی ہے یانہیں ہوئی؟ نیز میں نے جامعہ عمر بن خطاب سے فتوی طلب کیا تو انہوں نے ایک کا فتوی دیا، لیکن میرا سسر نہیں مان رہا  ، بیوی سے بات ہوئی اور رجوع ہوا تو اس نے بتایا کہ اس کو کہا تھا کہ طلاق نہیں ہوئی تھی، باقی سچائی اللہ کو معلوم ہوگی بیوی کی سچائی کی گواہی مشکل ہے۔

 بچہ چار  سےآٹھ  دن میں پیدا ہو جائے گا ،بچے اور بیوی کے بارے میں  کیا احکامات ہوں گے، اس کی بھی راہ نمائی کر دیں ۔

وضاحت:

 میاں بیوی کی صرف تکرار تھی، بیوی اپنے ابو سے جھوٹ بول کر کہتی ہے کہ اس (شوہر)نے رات کو بولا  تھاکہ صبح اپنےگھر  سسرال جانا ہے ، اس بات پر تکرار تھی، شوہر بول رہا تھا کہ اس نے جھوٹ بولا ہے اور شوہر نے اس معاملے میں خود کو سچا ثابت کیا اورسسر اور دوگواہوں کے سامنے قسم بھی کھائی کہ میں سچا ہوں، جس پر سسر  نہ مانا ،دو گواہ مان گئے کہ شوہر سچا ہے۔

شوہر غصہ میں تھا، آنکھوں کے سامنے ایک بار اندھیرا چھا گیا، پھر شوہر نے دل میں نیت کی کہ اب طلاق دیتا ہو ں،پھر تین کی گنتی کی اور تینوں(سسر،چچااور چچی) کی طرف انگلی کا اشارہ کیا اور زبان سے بولا" میری اس کو طلاق ہے"،" اس کو "کہتے وقت اشارہ نیچے کیا، بیوی کی طرف نہ کیا، اور تینوں کو طلاق کہتے وقت نیت یہ تھی کہ تینوں سن لیں تاکہ بعد میں جھوٹا نہ کہا جائے ،نیت صرف ایک طلاق کی تھی ،بوجہ بار بار جھوٹا کہا جانا تین کو الگ الگ ایک بار کی نیت سے کہا، تاکہ تینوں سن لیں اور گواہ بن جائیں کہ شوہر نے  ایک طلاق  دی ہے۔

جواب

صورت ِ مسئولہ میں سائل کے الفاظ "طلاق ہے ،طلاق ہے،طلاق ہے"الفاظِ صریحہ میں سے ہیں ، اور الفاظِ صریحہ میں نیت معتبرنہیں ہوتی ،بلکہ نیت کے بغیربھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، لہذا  سائل کا یہ کہنا کہ "ایک کی نیت کر کے تین کی گنتی کر کے تینوں(سسر،چچا اورچچی) کو اشارہ کر کے" طلاق ہے ،طلاق ہے،طلاق ہے "کہا "، اس کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں ہے، بلکہ مذکورہ الفاظ سے  سائل کی بیوی  پرتین طلاقیں واقع ہوگئیں ، اور وہ سائل پرحرمت مغلّظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے،  اب  دونوں کا ساتھ  رہنا شرعاً جائز نہیں ہے،مطلقہ اپنے  شوہر سے علیحدہ ہونے کے بعد اپنی عدّت ( حاملہ ہونے کی وجہ سے بچے کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔البتہ اگر مطلقہ اپنی عدّت گزارنے کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اور دوسرے شوہر سے صحبت(جسمانی تعلق ) ہوجائے اس کے بعد وہ دوسرا شوہر  اسےطلاق دےدے یا اس  کا انتقال ہوجائے  یا عورت اس سے طلاق لے لے،تو  اس کی عدّت گزار کر اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے ،بچے کے متعلق شرعی حکم یہ ہے بیٹاسات سال تک اور بیٹی نوسال تک اپنی والدہ کی پرورش میں رہےگی،مذکورہ مدت گزرنے کے بعد ان بچوں کی پرورش کا حق والد کو ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"‌كرر لفظ الطلاق وقع الكل، وإن نوى التأكيد دين.

(قوله وإن نوى التأكيد دين) أي ووقع الكل قضاء، وكذا إذا طلق أشباه: أي بأن لم ينو استئنافا ولا تأكيدا لأن الأصل عدم التأكيد".

(كتاب الطلاق،باب صريح الطلاق،مطلب الطلاق يقع بعدد قرن به لا به،ج:3،ص:293،ط:سعيد)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"رجل قال لامرأته أنت طالق أنت طالق أنت طالق فقال عنيت بالأولى الطلاق وبالثانية والثالثة إفهامها صدق ديانة وفي القضاء طلقت ثلاثا كذا في فتاوى قاضي خان .متى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد الطلاق وإن عنى بالثاني الأول لم يصدق في القضاء".

(كتاب الطلاق،الفصل الأول في الطلاق الصريح ،ج:1،ص:355/56،ط: دار الفکر)

وفيه أيضا:

"وإن كان الطلاق ثلاثاً في الحرّة وثنتين في الأمة لم تحلّ له حتى تنكح زوجاً غيره نكاحاًصحيحاًويدخل بها ثم يطلّقها أو يموت عنها كذا في الهداية" .

(الفتاوی الهندیة، کتاب الطلاق، الباب السادس، ج:3،ص:473،ط:دار الفکر)

ردالمحتار ميں هے:

"‌لا ‌بد في وقوعه قضاء وديانة من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها عالما بمعناه".

(كتاب الطلاق،باب صريح الطلاق،ج:3،ص:250،ط:سعيد)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا.

وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى."

( کتاب الطلاق، باب الحضانة،ج:3، ص:555، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308100644

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں