بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چھتیس سال بعد دعوی قابلِ سماع نہیں


سوال

ہمارے دادا کے بھائیوں میں زمین تقسیم ہوئی ،اس کے بعد  1962 میں ہمارے دادا نے اپنی بعض اولاد کو وہ زمین ہبہ کردی ،جس کے کاغذات بھی موجود ہیں،اس کے بعد  سے  زمینیں انہی اولاد کے قبضے میں ہے اور وہ اس میں تصرف بھی کرتے رہے،خرید و فروخت بھی کرتے رہے ،لیکن اب 2023 میں دیگر اولاد  دعوی  کر رہی ہیں کہ دادا نے ہبہ نہیں کیا تھا اور اس میں میراث جاری ہونی چاہیے۔

کیا 60 سال  بعد یہ دعوی قبول کیا جائےگا؟

وضاحت:دعوی اس بنیاد پر کر رہے ہیں کہ جب دادا نے اپنی بعض اولاد کو ہبہ کیا تھا ،جس پر  ہبہ کے کاغذات بھی موجود ہیں، لیکن  اس کے بعد دادا کے بھائیوں میں تقسیم کے متعلق  یہ اشکال پیدا ہوا کہ بعض  بھائیوں کوآباد زمینیں ملی ہیں   اور بعض  کو غیر آباد ،جس کی وجہ سے داد ا کے بھائیوں نے آپس میں زمینوں میں تبادلہ کیا جس کے سبب ہمارے دادا کے ہبہ کاغذات میں اور زمینوں کی حدود  میں  فرق آ گیا ،لیکن اس کے بعد سے کئی سالوں سے زمینیں ہمارے ہی قبضے میں ہیں ۔

جواب

واضح رہے کہ  بغیر شرعی عذر کے چھتیس سال تک  دعوی چھوڑنے کے بعد اگر کوئی دعوی کرے تو اس کا دعوی شرعاً نہیں سنا جاجائے گا،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعی مذکورہ زمینیں سائل کے دادا نے  اپنے بچوں میں ہبہ کی تھی اور مالکانہ حقوق کے ساتھ ان کے قبضے میں بھی دے دی تھیں  اور ساٹھ سال سے وہ اس زمین  پر قابض ہیں اور تصرف بھی کرتے آئے ہیں تو مذکورہ زمینیں اب انہی ورثاء کی ہوں گی، ان  زمینوں پر دیگر ورثاء کا میراث کا دعوی معتبر نہیں ہوگا۔

رد المحتار میں ہے:

"وفي جامع الفتوى عن فتاوى العتابي قال المتأخرون من أهل الفتوى: لا تسمع الدعوى بعد ست وثلاثين سنة إلا أن يكون المدعي غائبا أو صبيا أو مجنونا وليس لهما ولي أو المدعى عليه أميرا جائرا اهـ. ونقل ط عن الخلاصة لا تسمع بعد ثلاثين سنة اهـ. ثم لا يخفى أن هذا ليس مبنيا على المنع السلطاني بل هو منع من الفقهاء فلا تسمع الدعوى بعده وإن أمر السلطان بسماعها."

(كتاب القضاء، ج:5، ص:422، ط:سعيد)

البحرا لرائق میں ہے:

"قال ابن الغرس: وفي المبسوط رجل ‌ترك ‌الدعوى ثلاثة وثلاثين سنة، ولم يكن له مانع من الدعوى ثم ادعى لم تسمع دعواه؛ لأن ‌ترك ‌الدعوى مع التمكن يدل على عدم الحق ظاهرا."

(كتاب الدعوى ،باب التحالف ،فصل يعني في دفع الدعوى ،ج:7،ص:228،ط:دارالكتاب الاسلامي )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100404

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں