کیا تین سال کے بچے کو اپنے ساتھ مسجد لایا جا سکتا ہے؟یہ بھی معلوم ہو کہ بچہ پیشاب نہیں کرے گا!
ایسےچھوٹے بچے جو مسجد کے آداب اور پاکی کا خیال نہیں رکھ سکتے اور ان کی وجہ سے دیگر نمازیوں کی نماز میں خلل پڑتا ہو ان کو مسجد میں لانا مناسب نہیں ہے، البتہ سمجھ دار بچے جو مسجد کی پاکی اور آداب کا خیال رکھ سکتے ہوں ان کو نماز کی ترغیب کے لیے مسجد میں لانا جائز بلکہ مستحسن ہے؛ تاکہ ان کو نماز کی عادت ہو، البتہ ساتھ لانے والے کو چاہیے کہ وہ بچوں کو اپنے قریب کھڑا کرکے نماز پڑھائیں؛ تاکہ کسی کی نماز میں خلل واقع نہ ہو۔
نیز بچے کے سرپرست کا بچے کو مسجد میں ساتھ لاکر اسے شور مچاتے اور کھیلتے ہوئے چھوڑدینا، سمجھانے کی کوشش نہ کرنا، یا اتنی کم عمر کے بچے لانا جن سے مسجد کی ناپاکی کا اندیشہ ہو، سرپرست کے حق میں مسجد کی بے ادبی اور گناہ ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں تین سال کی عمر ایسی نہیں جس میں بچے کو سمجھ بوجھ ہو، اتنی عمر کے بچے سے ہرگز یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ مسجد کے آداب اور اس کی پاکی کی حفاظت کرے گا اور کسی کی نماز میں خلل نہیں ڈالے گا اور شور شرابہ نہیں کرے گا، اس وجہ سے اتنی کم عمر کے بچے کو مسجد لانے سے گریز کیا جائے۔
ویحرم إدخال الصبیان والمجانین حیث غلب تنجیسهم.
وفي الشامیة:
(قوله: یحرم ...الخ) لما أخرجه المنذري مرفوعاً: جنّبوا مساجد كم صبیانکم... الخ والمراد بالحرمة كراهة التحریم... الخ
(شامی ص ۴۸۶، ج ۱)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144108201701
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن