ایک صاحب رمضان سے پہلے دبئی گئے، وہاں رمضان کا چاند نظر آگیا اور ماہ رمضان شروع ہو گیا دس رمضان کو رات کی فلائٹ لے کر وہ شخص انڈیا چلا آیا رات کا ذکر اس لیے کیا کہ اس کا کوئی روزہ اس سفر کی وجہ سے قضانہیں ہوا ،اب اگر انڈیا میں رمضان المبارک میں تیس روزے مکمل ہوتے ہیں تو اس شخص کے اکتیس روزے ہوں گے تو اب اس شخص کے اکتیسویں روزے کا کیا حکم ہے ؟دوسری صورت یہ ہے کہ ان صاحب کے یہاں آنے کے بعد دوسرے اسفار کی وجہ سے کئی روزے قضا بھی ہو گئے، اب وہ اکتیسواں روزہ ان قضا روزوں میں سے کسی کا بدل ہو سکتا ہے یا نہیں ؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کے لیے اکتیسواں روزہ رکھنا فرض نہیں ہے، اس لیے کہ قمری مہینہ تیس دن سے زیادہ کا نہیں ہوسکتا، البتہ دیگر روزہ داروں اور رمضان کے احترام میں یہ شخص بھی روزہ رکھ لے تو بہتر ہے۔ (روزہ کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا ،ص: 123)
نیز اس دن کے روزے میں قضاء رمضان کی نیت بھی کی جاسکتی ہے۔
مبسوط سرخسی میں ہے:
"لأن الشهر لا يكون أكثر من ثلاثين يوما وعلى هذا روي عن محمد - رحمه الله تعالى - أنهم لو صاموا بشهادة الواحد على رؤية الهلال فصاموا ثلاثين يوما ثم لم يروا الهلال أفطروا؛ لأن الشهر لا يكون أكثر من ثلاثين يوما۔"
(المبسوط للسرخسي،كتاب الصوم،ج:٣، صفحة :78، ط: دار المعرفة، بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144309101111
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن