بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تیس بکریوں، دو بھینسوں اور دو تولہ سونے پر زکاۃ لازم ہے یا نہیں؟


سوال

مجھے  زکوٰۃ کے بارے میں پوچھنا تھا، میرے ہاں ماشاءاللہ 30 بکریاں ہیں اور دو بھینسیں ہیں، اور دو تولہ سونا ہے، تو پوچھنا یہ تھا کہ میرے اوپر زکوٰۃ واجب ہے یا نہیں؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر سائل نے ان بکریوں اور بھینسوں کو تجارت کےلیے پالا ہوا ہے، تو اس صورت میں بکریوں، بھینسوں، اسی طرح اور کوئی مالِ تجارت اگر ہے اور دو تولہ سونے کی قیمت ضروریات اور قرض وغیرہ منہا کرنے کےبعد اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے مساوی ہو اور اس پر سال بھی گزرچکا ہو، تو سائل پر مجموعی مالیت کا ڈھائی فیصد بطورِ زکاۃ کسی مستحقِ زکاۃ شخص کو ادا کرنالازم ہوگا۔

اور اگر سائل نے ان بکریوں کو نسل یا دودھ وغیرہ کی خاطر پالا ہوا ہے یعنی تجارت مقصد نہیں ہے، تو نصاب کے بقدر نہ ہونے کی وجہ سے ان جانوروں پر تو فی الحال زکاۃ لازم نہیں ہے، تاہم دو تولہ سونے کے ساتھ، ساتھ سائل کے پاس کچھ نقدی  وغیرہ بھی اگر ہے، اور ضروریات اور قرضہ وغیرہ منہا کرنے کےبعد سونے اور نقدی کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے بقدر ہوتی ہے، تو سال گزرنے کے بعد  دو تولہ سونے اور اس نقدی پر زکاۃ لازم ہوگی۔

فتح القدير لكمال ابن همام ؒ میں ہے:

"قال (وتضم قيمة العروض إلى الذهب والفضة حتى يتم النصاب) لأن الوجوب في الكل باعتبار التجارة وإن افترقت جهة الإعداد.

(قوله وتضم إلخ) حاصله أن عروض التجارة يضم بعضها إلى بعض بالقيمة وإن اختلفت أجناسها، وكذا تضم هي إلى النقدين بالإجماع، والسوائم المختلفة الجنس لا تضم بالإجماع كالإبل والغنم، والنقدان يضم أحدهما إلى الآخر في تكميل النصاب عندنا."

(ص:٢٢١،ج:٢،كتاب الزكاة، باب زكاة المال، فصل في العروض، ط:دار الفكر،بيروت)

تبيين الحقائق   میں ہے:

"اتفقوا على أن الإبل ‌لا ‌تضم إلى البقر والغنم، ولا بعضها إلى بعض إلا أن تكون للتجارة، وكذا ‌لا ‌تضم السائمة إلى الدراهم والدنانير، ولا يضمان إلى السائمة."

(ص:٢٧٢،ج:١،کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الخیل، ط:دار الکتاب الإسلامي)

الفتاوي الهندية   میں ہے:

"تجب الزكاة في ذكورها، وإناثها، ومختلطهما والسائمة هي التي تسام في البراري لقصد الدر والنسل والزيادة في السمن والثمن حتى لو أسيمت للحمل والركوب لا للدر والنسل فلا زكاة فيها كذا في محيط السرخسي. وكذا لو أسيمت للحم، ولو أسيمت للتجارة ففيها زكاة التجارة دون السائمة."

(ص:١٧٦،ج:١،کتاب الزکاۃ،الباب الثانی في صدقة السوائم،ط:دار الفکر،بیروت)

بدائع الصنائع   میں ہے:

"وأما صفة نصاب السائمة فله صفات منها أن يكون معدا للإسامة وهو أن يسيمها للدر والنسل لما ذكرنا أن مال الزكاة هو المال النامي وهو المعد للاستنماء، والنماء في الحيوان بالإسامة إذ بها يحصل النسل فيزداد المال فإن أسيمت للحمل أو الركوب أو اللحم فلا زكاة فيها ولو أسيمت للبيع والتجارة ففيها زكاة مال التجارة لا زكاة السائمة، ثم السائمة هي الراعية التي تكتفي بالرعي عن العلف ويمونها ذلك ولا تحتاج إلى أن تعلف، فإن كانت تسام في بعض السنة وتعلف وتمان في البعض يعتبر فيه الغالب؛ لأن للأكثر حكم الكل."

(ص:٣٠،ج:٢،کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ السوائم، فصل صفة نصاب السوائم، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101864

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں