بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

3 پتی گیم کھیلنا


سوال

3 پتی گیم کھیلنا حرام ہے یا حلال ؟

جواب

’’تین پتی گیم‘‘ کھیلنے اور اس کے ذریعہ سے پیسے کمانے کا مکمل طریقہ کار ہمارے علم میں نہیں ہے، مکمل طریقہ کار کی وضاحت کے ساتھ دوبارہ سوال ارسال کردیں؛ تاکہ اس کا حکم بتایا جاسکے۔ہماری اجمالی معلومات کے مطابق  اس گیم  میں شرعا کئی خرابیاں موجود ہیں:

1۔  ’’تین پتی گیم‘‘ تاش کی طرح کا ایک گیم ہے جو انٹرنیٹ پر آن لائن کھیلا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ سے ’’جوا‘‘ کھیل کر پیسے کمائے جاتے ہیں،  "جو ا" کھیلنا اور اس کے ذریعہ پیسا کمانا حرام ہے۔

2۔  یہ گیم جاندار کی تصاویر پر مشتمل ہے،جاندار کی تصویر کی حرمت سے متعلق  قرآن و حدیث کی متعدد  تصریحات موجود ہیں ۔

3۔شریعت مطہرہ میں ایسے کھیل کھیلنے  کی  اجازت ہے کہ جس   میں  کوئی جسمانی فائدہ ہو اور اسے جسمانی ورزش کی  غرض سے کھیلا جائے ،ایسے گیم / کھیل جن میں جسمانی ورزش نہ ہو ،محض لہو و لعب کے لیےاور وقت گزاری کے لیے  کھیلے جاتے ہوں، ایسے گیم / کھیل کھیلنا شرعا درست نہیں ہیں ،صورت مسئولہ میں تین پٹی گیم میں کوئی  جسمانی فائدہ نہیں ہے ،یہ محض لہو و لعب اور جوے کے شوقین لوگوں کے لیے وقت گزاری کا مشغلہ ہے ،لہذا یہ گیم  کھیلنا شرعا جائز نہیں ہے ۔

قرآن کریم میں ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [المائدة :۹٠]

"ترجمہ :اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔ "

      مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر".

(4/483، کتاب البیوع  والاقضیہ، ط؛ مکتبہ رشد، ریاض)

أحکام القرآن  میں ہے:

"ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار، قال ابن عباس: إن المخاطرة قمار، وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال، والزوجة، وقد كان ذلك مباحاً إلى أن ورد تحريمه".

(احکام القرآن للجصاص، 1/ 398،  باب تحریم المیسر، سورۃ البقرۃ، ط: دار الکتب العلمیۃ بیروت - لبنان)

روح المعانی میں ہے:

’’ولهو الحديث على ما روي عن الحسن كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها‘‘.

 (تفسیر آلوسیؒ (11 / 66)، سورۃ لقمان، ط:دار الکتب العلمیہ) 

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

(6 / 403، کتاب الحظر والاباحۃ، ط ؛ سعید)

         تکملۃ فتح الملہم میں ہے:

’’فالضابط في هذا . . . أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام اور مكروه تحريماً، . . . وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة . . . كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذالك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح،  بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه . . . وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه‘‘. 

(تکملہ فتح الملہم، قبیل کتاب الرؤیا، (4/435) ط:  دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101032

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں