بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو ماہ بعد میراث ملنے کی صورت میں فی الحال حج کی فرضیت کا حکم


سوال

ایک عورت کے پاس 2 مہینے کے بعد اپنے والد کی وراثت کی طرف سے 25 لاکھ روپے آنے ہے، ابھی اس کے پاس کچھ تھوڑی سی رقم 50 ہزار روپے موجود ہے ،تو آیا اس پر حج فرض ہوگا یا نہیں ؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں فی الحال مذکورہ عورت کے پاس اتنا مال نہیں ہے،کہ جس سےمذکورہ عورت  کے  حج کے اخراجات  مکمل ہوسکیں ،نہ ہی یہ صاحبِ نصاب ہےاس لیے ایسی صورت میں مذکورہ عورت پر حج فرض  نہیں ہوگا  ،اور رہی بات پچیس لاکھ روپے کی ،تو اگر حکومت کی طرف سے حج  کے اعلان کے دنوں میں   مذکورہ عورت اس رقم کی مالک ہوجاۓ  اور بقیہ تمام شرائط مثلاً محرم،سفر کے اخراجا ت وغیرہ کی شرائط پائی جائیں  تو  پھر عورت پر حج کرنا فرض ہوگا،ورنہ نہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(على مسلم) ...... (حر مكلف) ....... (صحيح) البدن (بصير) غير محبوس وخائف من سلطان يمنع منه (ذي زاد) يصح به بدنه.... (وراحلة).....(فضلا عما لا بد منه) كما مر في الزكاة....(و) فضلا عن (نفقة عياله) ممن تلزمه نفقته لتقدم حق العبد (إلى) حين (عوده)... (مع أمن الطريق) بغلبة السلامة.....(قوله كما مر في الزكاة) أي من بيان ما لا بد منه من الحوائج الأصلية كفرسه وسلاحه وثيابه وعبيد خدمته وآلات حرفته وأثاثه وقضاء ديونه وأصدقته ولو مؤجلة كما في اللباب وغيره والمراد قضاء ديون العباد."

(کتاب الحج، ج2، ص:458 تا 463، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ثم ما ذكرنا من الشرائط لوجوب الحج من الزاد، والراحلة، وغير ذلك يعتبر، وجودها، وقت ‌خروج ‌أهل ‌بلده حتى لو ملك الزاد، والراحلة في أول السنة قبل أشهر الحج، وقبل أن يخرج أهل بلده إلى مكة فهو في سعة من صرف ذلك إلى حيث أحب؛ لأنه لا يلزمه التأهب للحج قبل ‌خروج ‌أهل ‌بلده؛ لأنه لم يجب عليه الحج قبله، ومن لا حج عليه لا يلزمه التأهب للحج فكان بسبيل من التصرف في ماله كيف شاء، وإذا صرف ماله ثم خرج أهل بلده لا يجب عليه الحج فأما إذا جاء، وقت الخروج، والمال في يده فليس له أن يصرفه إلى غيره على قول من يقول بالوجوب على الفور؛ لأنه إذا جاء وقت ‌خروج ‌أهل ‌بلده فقد وجب عليه الحج لوجود الاستطاعة فيلزمه التأهب للحج، فلا يجوز له صرفه إلى غيره كالمسافر إذا كان معه ماء للطهارة، وقد قرب الوقت لا يجوز له استهلاكه في غير الطهارة، فإن صرفه إلى غير الحج أثم، وعليه الحج، والله تعالى أعلم."

(کتاب الحج، فصل ركن الحج، ج:2، ص:125، ط: دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144507100071

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں