بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

سابقہ بیگم کو دوبارہ نکاح میں لانے کا حکم


سوال

میں نے ڈیڑھ سال قبل گھریلو جھگڑے کی وجہ سے بیگم سے تنگ آ کر جذبات میں اسے فون پر کہا کہ"  اگر گھر نہیں بنا رہی تو میں یہ معاملہ ختم کرتا ہوں" اور ڈائیورس لیٹر ( طلاق نامہ )تمہیں بھجوا دوں گا، اس کے بعد وکیل سے رابطہ کیا، تو اس نے طلاق نامہ بنا کر دیا ،(جس میں تین طلاقوں کا ذکر ہے)اور اس  کا اردو ترجمہ سوال کے ساتھ منسلک  ہے، عدت کے خرچے اور مہر کی تفصیل طلاق نامے میں درج ہے۔

اب عورت کی طرف سے پیغام آرہا ہے کہ گھر کو دوبارہ آباد کریں؛ کیوں کہ ہمارے دو بچے ہیں؛ لڑکی  4  سال کی اور لڑکا 10 سال کا ہے اب آپ حضرات سے یہ رہنمائی چاہیے کہ اس رشتے کو دوبارہ  بحال کرنے کے لیےشرعی  طور پر کیا صورت ہو سکتی ہے؟یونین کونسل والوں نے طلاق نامہ کینسل کرانے کے لیے فتوی طلب کیا ہے۔

 

جواب

صورتِ مسئولہ میں منسلکہ طلاق نامہ (اسٹامپ پیپر )کی رو سے سائل کی بیوی پر اسی  وقت تینوں طلاقیں   واقع ہوچکی ہیں، بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ  مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے،نکاح ختم ہوگیا ،اب رجوع کرنے یا دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں۔

مطلقہ کی عدت( پوری تین ماہواریاں) اگر گزر چکی ہے  تو وہ شرعاً دوسری  جگہ نکاح کر سکتی ہے،   دوسری جگہ نکاح  کرنےکے بعد دوسرے شوہر سے صحبت( جسمانی تعلق) ہو جائے، اس کے بعد وہ دوسرا شوہر اسے طلاق دے دے ،یا بیوی طلاق لے لے، یااس  کا انتقال ہو جائے تو اس  کی  عدت گزار کر سائل کے  ساتھ دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے، اس کے علاوہ دوبارہ ساتھ رہنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

(الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَإمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ.............فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ)             (البقرة : 229 -230)

ترجمہ:

"وہ طلاق دو مرتبہ (کی) ہے پھر خواہ رکھ لینا قاعدہ کے موافق خواہ چھوڑ دینا خوش عنوانی کے ساتھ .... پھر اگر کوئی ( تیسری ) طلاق دے دے عورت کو تو پھر وہ اس کے لیے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ (عدت کے بعد)  نکاح کرلے۔پھر وہ اس کو طلاق دے دے عورت کو تو  ان دونوں پر اس میں کچھ گناہ نہیں کہ بدستور پھر مل جائیں ۔بشرطیکہ دونوں غالب گمان رکھتے ہیں کہ (آئندہ) خداوندی ضابطوں کو قائم رکھیں گے اور یہ خداوندی ضابطے ہیں حق تعالیٰ ان کو بیان فرماتے ہیں ایسے لوگوں کے  لئے جو دانش مند ہیں۔"

(بیان القرآن ،ص: 162، ط:مکتبہ رحمانیہ)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة".

( کتاب الطلاق، باب الرجعة، فصل فی شرائط المبتوتة لزوجھا، ج:3، ص:187، ط: دارالکتب العلمیه)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144601101025

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں