بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دونوں سجدوں کےدرمیان دعا پڑھنے کا حکم


سوال

دونوں سجدوں کے درمیان میں اگر مندرجہ ذیل میں سے کوئی بھی دعا پڑھیں تو کیا یہ عمل صحیح ہے ؟

"الله‍م اغفرلي و ارحمني و عافني وارزقني واه‍دني وشفاء من كل داء " یا

الله‍م إني أسئلك شفاء من كل داء

جواب

واضح رہےکہ حدیث مبارک میں دونوں سجدوں کے درمیان کی یہ دعا وارد ہے:"اللهم اغفرلي وارحمني واجبرني واهدني وارزقني"،لہٰذامنفرد کےلیے دونوں سجدوں کے درمیان جلسہ میں  "اللّهم اغفرلی"   کہنا مستحب ہے، اور اگر چاہےتواس کے ساتھ  "و ارحمنی واهدنی وعافنی وارزقنی"بھی پڑھ لے،اس کےپڑھنےمیں کوئی حرج نہیں ہے،منفردفرائض،سنن اورنوافل  میں مذکورہ  دعائیں  پڑھ سکتاہے،البتہ اگرکوئی شخص کسی کی اقتداء میں فرض نماز پڑھ رہاہو اور رکوع و سجود، قومہ و جلسہ میں اتنا وقت مل جاتا ہو کہ یہ دعائیں پڑھی جاسکتی ہوں تو بھی یہ دعائیں مقتدی پڑھ سکتاہے ،لیکن یہ خیال رکھناضروری ہےکہ ان دعاؤں کی وجہ سےامام کی متابعت فوت نہ ہو۔

البتہ امام کےلیےمسنون تسبیحات پراکتفاء کرناہی مناسب ہے،کیوں کہ نمازیوں میں ضعیف بھی ہوتےہیں،اس لیےجماعت میں نمازیوں کی رعایت کرنےکاحدیث میں حکم بھی ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن ابن عباس أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان یقول بین السجدتین: اللہم اغفرلي وارحمني واجبرني واہدني وارزقني".

(سنن الترمذي، أبواب الصلاۃ، باب ما یقول بین السجدتین، رقم الحدیث 284، دارالحدیث القاہرۃ)

بخاری شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إذا صلى أحدكم للناس ‌فليخفف، فإنه منهم الضعيف والسقيم والكبير، وإذا صلى أحدكم لنفسه فليطول ما شاء."

(کتاب الصلاة، باب إذا صلى لنفسه...، 248/1، ط: دار ابن كثير)

ترجمہ:حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  جب کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو اسے تخفیف کرنا چاہیے؛ کیوں کہ مقتدیوں میں کم زور اور بیمار اور بوڑھے سب ہی ہوتے ہیں اور جب تم میں سے کوئی اپنے نماز پڑھے تو جس قدر چاہے طول دے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(ولیس بینهما ذکر مسنون وكذا) ليس(بعد رفعه من الركوع)دعاء،وكذا لايأتي في ركوعه و سجوده بغيرالتسبيح(على المذهب) وماورد محمول علی النفل ... ثم الحمل المذکور صرح به المشائخ في الوارد في الرکوع والسجود ... وقال: إن ثبت في المکتوبة فلیکن في حالة الانفراد أو الجماعة والمامومون محصورون لایتثقلون بذلك ... الخ."

(کتاب الصلاۃ، باب صفة الصلاۃ، 506/1،  ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"قال أبو يوسف: سألت الإمام: أيقول الرجل إذا رفع رأسه من الركوع والسجود: اللهم اغفر لي؟ قال: يقول ربنا لك الحمد وسكت، ولقد أحسن في الجواب؛ إذ لم ينه عن الاستغفار، نهر وغيره.

أقول: بل فيه إشارة إلى أنه غير مكروه؛ إذ لو كان مكروهاً لنهى عنه، كما ينهى عن القراءة في الركوع والسجود، وعدم كونه مسنوناً لا ينافي الجواز كالتسمية بين الفاتحة والسورة، بل ينبغي أن يندب الدعاء بالمغفرة بين السجدتين خروجاً من خلاف الإمام أحمد لإبطاله الصلاة بتركه عامداً، ولم أر من صرح بذلك عندنا، لكن صرحوا باستحباب مراعاة الخلاف، والله أعلم".

 (باب صفة الصلاۃ، 505/1، ط:  سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101370

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں