بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

2 بھائی اور 5 بہنوں میں ترکہ کی تقسیم


سوال

میرے والدین کا انتقال ہوگیا ہے، ورثاء میں ہم 5 بہنیں اور 2 بھائی ہیں، والدین کے والدین ان کی زندگی میں انتقال کرگئے تھے، والد کے ترکہ کا مکان جسے بھائیوں نے فروخت کردیا ہے، اس میں شرعی لحاظ سے ہم بہن بھائیوں کا کتنا حصہ بنتا ہے؟ اسی طرح والد کے انتقال کے بعد متروکہ گھر کا کرایہ والدہ اور چھوٹا بھائی اور والدہ کے انتقال کے بعد دونوں بھائی استعمال کرتے رہے، اس میں ہم بہنوں کا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے مرحوم والدین کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہےکہ سب سے پہلے ان کے ترکہ میں سے ان کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد، ان پر اگر کوئی قرض ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد، انہوں نے اگر  کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی ترکہ کےایک تہائی میں اسے نافذ کرنے کےبعد، باقی متروکہ جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کے 9 حصے کرکے مرحومین کے دو بیٹوں میں سے ہر ایک کو 2 حصے اور پانچ بیٹیوں میں سے ہر ایک کو ایک حصہ ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت: 9

بیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
2211111

یعنی 100 روپے میں سے مرحومین کے دو بیٹوں میں سے ہر ایک کو 22.222 روپے اور پانچ بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 11.111 روپے ملیں گے۔

تقسیم سے قبل متروکہ گھر کا کرایہ جو ورثاء استعمال کرتے رہے، اس میں بھی بہنوں کا اسی ذکر کردہ تناسب سے حق و حصہ ہے، لہٰذا جن ورثاء نے وہ کرایہ اپنے ذاتی استعمال میں خرچ کیا ہے، ان پر لازم ہے کہ اس کرایہ میں ہر وارث کا جو حصہ بنتا ہے، وہ اسے واپس کریں،

فقط واللہ اعلم۔


فتوی نمبر : 144305100822

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں