بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دو بیویوں کے درمیان برابری کی حد


سوال

 میری دو بیویاں ہیں،  پہلی بیوی سے چار بچے ہیں جب کہ دوسری سے کوئی بچہ نہیں ہے ،  میں نے ان دونوں کے درمیان اوقات کو اس طرح تقسیم کیا ہوا ہے : پہلی بیوی اور بچے: ایک مکمل دن اور رات یعنی 7:00am سے لے کر 7:00am تک،( اس میں 9:00am تا 3:00pm میرے آفس کا وقت ہوتا ہے اور آدھا گھنٹا 6:30pm تا 7:00pm میں دوسری بیوی کو دیتا ہوں) دوسری بیوی: ایک مکمل دن اور رات 7:00am سے لے کر 7:00am تک ، (اس میں 9:00am تا 3:00pm میرے آفس کا وقت ہوتا ہے اورچار گھنٹے 4:00pm تا 8:00pm میں پہلی بیوی اور بچوں کو دیتا ہوں ) اس طرح پہلی بیوی اور بچوں کے دن دوسری بیوی کو آدھا گھنٹا ملتا ہے، جب کہ دوسری بیوی کے دن پہلی بیوی اور بچوں کو چار گھنٹے ، اسی طرح اتوار چھٹی کے دن کی یہ ترتیب ہے کہ پہلی بیوی اور بچوں کو چھے گھنٹے ملتے ہیں اور دوسری بیوی کو وہی آدھا گھنٹا ، میری سمجھ یہ ہے کہ پہلی بیوی کے ساتھ کیوں کہ بچے بھی ہیں، اس لیے انہیں دن میں زیادہ وقت ملنا چاہیے،  کیا دن اور رات کی یہ ترتیب اسلام کے مطابق ہے؟ نیز یہ واضح کر دیں کہ اس ضمن میں بیویوں کا حق کیا ہے؟ (کم ازکم کون سے اوقات ان کا حق ہیں)اور میرا اختیار کیا ہے، یعنی میں ان 24 گھنٹوں میں کتنے اوقات پر اختیار رکھتا ہوں کہ جس طرح مرضی ان کو طے کروں اور کون سے اوقات بیویوں اور بچوں کے حقوق میں آتے ہیں ؟ 

جواب

واضح رہے کہ دو یا دو سے زیادہ بیویوں کے درمیان رات گزارنے میں اور خرچہ ونان نفقہ دینے میں برابری کا معاملہ کرنا شوہر پر واجب ہے،  پہلی اور دوسری بیوی حقوق میں برابر ہیں، اور مساوات  صرف رات گزارنے میں واجب ہے، ہم بستری میں برابری شرط نہیں  ، نیز رہائش میں بھی بالکل برابری اور یک سانیت کا معاملہ کرنا شوہر پر لازم اور ضروری ہے، دونوں کو الگ الگ کمرہ دینا (جس میں رہائش کے علاوہ دیگر ضروریات، کچن، غسل خانہ اور بیت الخلا موجود ہو) لازم ہے، اور اگر ان چیزوں میں کسی ایک کے ساتھ جھکاؤ کا معاملہ کرے گا تو شوہر ظالم شمار ہوگا، اللہ کے یہاں اس کی پکڑ ہوگی۔

صورتِ مسئولہ میں دو بیویوں میں  مساوات شب باشی (یعنی صرف رات گزارنے) اور خرچہ ونان نفقہ دینے میں برابری کا معاملہ کرنا شوہر پر واجب ہے، رات گزارنےمیں دونوں کو برابر وقت  دینا ضروری ہے، اس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے، باقی دن کے اوقات میں برابری ضروری اور لازمی نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"وعنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يسأل في مرضه الذي مات فيه: «أين أنا غداً؟» يريد يوم عائشة، فأذن له أزواجه يكون حيث شاء، فكان في بيت عائشة حتى مات عندها. رواه البخاري".

(باب القسم، الفصل الأول، ج: 2، صفه: 964، رقم الحدیث: 3231، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ:" حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الوفات میں پوچھا کرتے کہ میں کل کہاں ہوں گا؟ یعنی حضرت عائشہ کے دن کا انتظار ہوتا  تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے  اجازت دے دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس بیوی کے پاس رہنا چاہیں وہاں رہیں، تو پھر وفات تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رہے۔"

وفیہ ایضاً:

"وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا كانت عند الرجل امرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة وشقه ساقط» . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي".

(باب القسم، الفصل الأول، ج: 2، صفه: 965، رقم الحدیث: 3236، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ: "حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیان برابری نہ کرے تو وہ قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ ساقط اور مفلوج ہوگا۔"

الدرالمختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض، نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة، بل يستحب.

 (قوله: وفي الملبوس والمأكول) أي والسكنى، ولو عبر بالنفقة لشمل الكل. ثم إن هذا معطوف على قوله: فيه، وضميره للقسم المراد به البيتوتة فقط؛ بقرينة العطف، وقد علمت أن العدل في كلامه بمعنى عدم الجور لابمعنى التسوية؛ فإنها لاتلزم في النفقة مطلقاً. قال في البحر: قال في البدائع: يجب عليه التسوية بين الحرتين والأمتين في المأكول والمشروب والملبوس والسكنى والبيتوتة، وهكذا ذكر الولوالجي. والحق أنه على قول من اعتبر حال الرجل وحده في النفقة. وأما على القول المفتى به من اعتبار حالهما فلا؛ فإن إحداهما قد تكون غنيةً والأخرى فقيرةً، فلا يلزم التسوية بينهما مطلقاً في النفقة. اهـ. وبه ظهر أنه لا حاجة إلى ما ذكره المصنف في المنح من جعله ما في المتن مبنياً على اعتبار حاله (قوله: والصحبة) كان المناسب ذكره عقب قوله: في البيتوتة؛ لأن الصحبة أي المعاشرة والمؤانسة ثمرة البيتوتة. ففي الخانية: ومما يجب على الأزواج للنساء: العدل والتسوية بينهن فيما يملكه، والبيتوتة عندهما للصحبة، والمؤانسة لا فيما لا يملكه وهو الحب". 

(کتاب النکاح، باب القسم بين الزوجات، ج: 3، صفحه: 201، ط: ایچ، ایم، سعید)

وفیہ ایضاً:

"(ويقيم عند كل واحدة منهن يوماً وليلةً) لكن إنما تلزمه التسوية في الليل، حتى لو جاء للأولى بعد الغروب وللثانية بعد العشاء فقد ترك القسم، ولا يجامعها في غير نوبتها، وكذا لايدخل عليها إلا لعيادتها ولو اشتد، ففي الجوهرة: لا بأس أن يقيم عندها حتى تشفي أو تموت، انتهى، يعني إذا لم يكن عندها من يؤنسها.

 (قوله: لكن إلخ) قال في الفتح: لانعلم خلافاً في أن العدل الواجب في البيتوتة والتأنيس في اليوم والليلة، وليس المراد أن يضبط زمان النهار، فبقدر ما عاشر فيه إحداهما يعاشر الأخرى، بل ذلك في البيتوتة، وأما النهار ففي الجملة اهـ يعني لو مكث عند واحدة أكثر النهار كفاه أن يمكث عند الثانية ولو أقل منه بخلافه في الليل، نهر (قوله: ولا يجامعها في غير نوبتها) أي ولو نهاراً ط". 

(کتاب النکاح، باب القسم بين الزوجات، ج: 3،صفحه:207، ط: ایچ، ایم، سعید)
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101952

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں