بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

صلاة التسبيح صغرى کی اسنادی حیثیت


سوال

کچھ دن پہلے یہ  بات سامنے آئی کہ "صلاةُ التسبيح صُغرى"بھی کوئی نماز ہے۔ یعنی اگر نفل نماز کے دوران دس مرتبہ "اللهُ أكبر"، دس مرتبہ"سُبحان الله" اوردس مر تبہ"الحمدُ لله" پڑھیں۔ کیا یہ درست ہے؟صحیح حدیث  سے ثابت ہے؟

جواب

واضح رہے کہ"صلاة التسبيح"مشہور تو وہی ہے جس میں  چار رکعت نماز میں تین سومرتبہ تیسراکلمہ پڑھنے کی ترتیب مذکورہے اور"صلاة التسبيح"کے متعلق احادیثِ مبارکہ میں جو فضائل مذکورہیں وہ اسی کے بارے  میں منقول ہیں۔البتہ   "سنن الترمذي"،"سنن النسائي"مسند أحمد"المستدرك على الصحيحين"صحيح ابن حبان "صحيح ابن خزيمة"ودیگر کتبِ احادیث میں ایک اورصورت بھی   مذکورہے، جودینی اور دنیوی مقاصدکےپورا ہونے کے لیے مجرّب ہے ، اس کو  بعض مشائخ کرام رحمہم اللہ نے"صلاة التسبيح صُغری"کا نام دیا ہے۔"سنن الترمذي"کی حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں:

"حدّثنا أحمد بنُ محمّد بنِ موسى قال: أخبرنا عبدُ الله بنُ المبارك قال: أخبرنا عِكرِمة بنُ عمّارٍ قال: حدّثني إسحاق بنُ عبد الله بنِ أبي طلحةَ عن أنس بن مالكٍ-رضي الله عنه- أنّ أمّ سُليم غدتْ على النبيِّ -صلّى الله عليه وسلّم-، فقالت: علِّمني كلماتٍ أقولُهنًّ في صلاتي، فقال: كبِّري الله عشراً، وسبِّحي الله عشراً، واحمدِيه عشراً، ثُمّ سَليْ ما شئتِ، يقولُ: نعمْ نعمْ".

(سنن الترمذي، أبواب الوتر، باب ماجاء في صلاة التسبيح، 2/347، رقم:481، ط: مصطفى البابي الحلبي-مصر)

ترجمہ:

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت اُمِ سُلیم رضی اللہ عنہاصبح کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئیں اورعرض کرنے لگیں:مجھے کچھ ایسی کلمات سکھادیجیےجنہیں میں نماز میں پڑھ لیاکروں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  "اللهُ أكبر" دس مرتبہ پڑھاکرو،"سُبحان الله" دس مر تبہ  پڑھاکرواور"الحمدُ لله"دس مرتبہ پڑھاکرو،(یہ کلمات مذکورہ تعداد میں پڑھنے کے بعد)پھر جو(دعا) چاہومانگو( اس کے جواب میں )اللہ تعالی فرمائیں گے:ہاں!ہاں!(یعنی میں نے تمہاری دعا قبول کرلی)‘‘۔

مذکورہ حدیث ،مختلف کتبٍِ احادیث میں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ مذکورہے  اور تمام احادیث ِ مبارکہ میں مذکورہ کلمات نماز میں پڑھنے کاذکرہے،البتہ "مسند أحمد"  کی روایت میں یہ کلمات، نماز میں پڑھنے کاذکرنہیں ہے۔"مسند أحمد"کی حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں:

"حدّثنا وكيعٌ، حدّثني عكرمة بنُ عمّارٍ عن إسحاق بنِ عبد الله بنِ أبي طلحة عن أنس بنِ مالكٍ-رضي الله عنه- قال: جاءتْ أمّ سُليمٍ إلى النبيِّ -صلّى الله عليه وسلّم-، فقالتْ: يا رسولَ الله، علِّمني كلماتٍ أدعو بهنَّ قال: تُسبِّحين الله عشراً، وتحمدِينه عشراً، وتكبِّرينه عشراً ، ثُمّ سَلي حاجتَك، فإنّه يقولُ: قد فعلتُ، قد فعلتُ".

(مسند أحمد، مسند أنس بن مالك، 19/240، رقم:12207، ط: مؤسسة الرسالة)

ترجمہ:

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت اُمِ سُلیم رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئیں اورعرض کرنے لگیں: اے اللہ کے رسول! مجھے کچھ ایسی کلمات سکھادیجیےجن کے ذریعے سے میں دعامانگ لیاکروں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  "سُبحان الله" دس مر تبہ  پڑھاکرو،"الحمدُ لله"دس مرتبہ پڑھاکرواور"اللهُ أكبر" دس مرتبہ پڑھاکرو،(یہ کلمات مذکورہ تعداد میں پڑھنے کے بعد)پھر اپنی ضرورت کے لیےدعامانگو(تو اس کے جواب میں )اللہ تعالی فرمائیں گے:میں نے کردیا،میں نے کردیا(یعنی میں نے تمہاری ضرورت پوری کردی)‘‘۔

۲۔امام ترمذی رحمہ اللہ مذکورہ حدیث روایت کرنے کے بعد اس کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"حديثُ أنسٍ حديثٌ حسنٌ غريبٌ".

(ٲیضاً)

ترجمہ:

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ کی (مذکورہ)حدیث حسن غریب ہے‘‘۔

امام حاکم رحمہ اللہ "المستدرك على الصحيحين"میں مذکورہ حدیث روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

"هذا حديثٌ صحيحٌ على شرط مٌسلم، ولم يُخرِّجاه".

ترجمہ:

’’یہ حدیث امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط کے مطابق ہے۔البتہ امام بخاری ومسلم  رحمہما اللہ نے اسے ذکر نہیں کیا‘‘۔

(المستدرك، 1/385، رقم:937، ط: دار الكتب العلمية-بيروت)

علامہ ضیاء الدین مقدسی رحمہ اللہ "الأحاديث المختارة"میں مذکورہ حدیث   کو چار طرق سے روایت کرتے ہیں اور ہرطریق کاحکم بیان کرتے ہوئےلکھتے ہیں:

"إسنادُه حسنٌ".

ترجمہ:

’’اس کی سند حسن ہے‘‘۔

(الأحاديث المختارة، ج:4، ص:353-356، رقم:1515-1518، ط: دار خضر-بيروت)

علامہ مناوی رحمہ اللہ "التيسير بشرح الجامع الصغير"میں مذکورہ حدیث کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"إسنادُه حسنٌ أو صحيحٌ".

ترجمہ:

’’اس (حدیث ) کی سند ’’حسن‘‘ یا’’صحیح ‘‘ہے‘‘۔

(التيسير بشرح الجامع الصغير، حرف السين، 2/52، ط: مكتبة الإمام الشافعي-الرياض)

خلاصہ یہ کہ مذکورہ حدیث ، سند کے اعتبار سے’’ حسن’’یا’’صحیح‘‘ ہے۔

۳۔مذکورہ کلمات ،نماز کے کس رکن میں پڑھے؟احادیثِ مبارکہ میں اس کاکوئی خاص محل متعین طورپر مذکورنہیں ہے، بظاہر نمازی کو اختیارہے،چاہےتووہ نمازکے دوران میں ہی کسی رکن میں پڑھ لے، چاہےتوآخرمیں تشہد کے بعد پڑھ لے۔

"نجات المسلمين"مؤلفہ مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ میں ہے:

’’مختصر"صلاة التسبيح":

"صلاة التسبيح"مشہور تو وہی ہےجس کی صورت اوپر لکھی گئی  اورفضائلِ مذکور بھی اسی کے لیے منقول ہیں۔مگر بعض روایات میں ایک اور صورت بھی منقول ہے جو مقاصدِ دینیہ اور دنیویہ پورے ہونے کے لیے مجرّب ہے ، اس کو بھی مشائخ نے"صلاة التسبيح صُغری"کے نام سے موسوم کیا ہے۔صورت اس کی یہ ہے:

امام احمد نے ’’مسند‘‘ میں اور ترمذی نے "باب ما جاء في صلاة التسبيح"میں اور نسائی  نے ’’سنن‘‘ میں ،ابن ِ خزیمہ،ابنِ حبان نے اپنی اپنی ’’صحیح‘‘ میں اور حاکم نے’’ مستدرک ‘‘ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت اُمِ سُلیم  رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو چند کلمات سکھائے،جن کو وہ نماز کے اندرپڑھ لیں توجو دعا مانگیں وہ قبول ہو۔وہ کلمات یہ ہیں:"سُبحان الله" دس مر تبہ،"الحمدُ لله" دس مرتبہ ،"اللهُ أكبر"دس مرتبہ۔

فائدہ: علامہ مناوی نے اس حدیث کو نقل کرکے فرمایاکہ اِسنا د اس کی حسن،یاصحیح ہے۔اس کے بعد فرمایاکہ یہ فوائد وآثار جب مرتب ہوں گےکہ ان کلمات کے معنی کا بھی دل میں استحضار ہو،محض زبان کی حرکت نہ ہو۔واللہ اعلم۔

ف:اس مختصر "صلاة التسبيح"میں جو دس مرتبہ کلماتِ مذکورہ پڑھنا منقول ہے، اس کا کوئی خاص محل  نہ روایتِ حدیث میں متعین کیاگیااور نہ علماومشائخ میں سے کسی کی نقل اس کے متعلق دیکھی۔اس لیے ظاہر یہ ہے کہ مصلی کو اختیار ہے جس رکن میں چاہے پڑھے،یاآخر میں تشہد کے بعد پڑھ لے۔واللہ سحانہ وتعالی اعلم‘‘۔

(نجات المسلمین مؤلفہ مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ، مختصر صلاۃ التسبیح،ص:۲۹۔۳۰، ط:دار الاشاعت )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102624

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں