بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

۲۷رجب منانے کا حکم


سوال

اگر کوئی آدمی شب معراج ٢٧ رجب کو مناتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ستائیس رجب کی شب سے متعلق یقینی طور پر یہ  نہیں کہاجاسکتا کہ یہ وہی رات ہے جس میں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے تھے؛  کیوں کہ اس بارے میں مختلف روایتیں ہیں، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ربیع الاول کے مہینے میں تشریف لے گئے تھے ، بعض روایتوں میں رجب کا بیان کیا گیا ہے، اس لیے پورے یقین کے ساتھ نہیں کہاجاسکتا کہ کون سی رات صحیح معنی میں معراج کی رات تھی ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر شبِ معراج  سے متعلق  شریعت میں کوئی خاص احکام ہوتے تو اس کی تاریخ اور مہینہ محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا، لیکن چوں کہ شبِ معراج کی تاریخ محفوظ نہیں تو اب یقینی طور سے ۲۷ رجب کو شبِ معراج قرار دینا درست نہیں۔
نیز یہ واقعہ معراج ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں پیش  آیا ، اس واقعہ کے بعد تقریباً ۱۲ سال تک آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  دنیا میں تشریف فرمارہے ،لیکن اس دوران یہ کہیں ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے شبِ معراج کے بارے میں کوئی خاص حکم دیا ہو ، یا اس کو منانے کا اہتمام فرمایا ہو  اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی تاکید فرمائی اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےسرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد سو سال تک اپنے طور پر  ۲۷ رجب کو اپنے طور پر خاص طریقہ سے منانے کا  اہتمام فرمایا۔

 لہذا جو چیز حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کی اور جوآپ کے صحابہ کرام نے نہیں کی ، اس کو دین کا حصہ قرار دینا ، یا اس کو سنت قرار دینا ، یا اس کے ساتھ سنت جیسا معاملہ کرنا بدعت ہے،۲۷رجب کو کسی خاص طریقے سے منانے والا شخص غیر شرعی امر(بدعت)کا مرتکب ہے،لہذااس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"مطلب في صلاة الرغائب

قال في البحر: ومن هنا يعلم كراهة الاجتماع على صلاة الرغائب التي تفعل في رجب في أولى جمعة منه وأنها بدعة، وما يحتاله أهل الروم من نذرها لتخرج عن النفل والكراهة فباطل اهـ.

قلت: وصرح بذلك في البزازية كما سيذكره الشارح آخر الباب، وقد بسط الكلام عليها شارحا المنية، وصرحا بأن ما روي فيها باطل موضوع، وبسطا الكلام فيها خصوصا في الحلية وللعلامة نور الدين المقدسي فيها تصنيف حسن سماه ردع الراغب، عن صلاة الرغائب، أحاط فيه بغالب كلام المتقدمين والمتأخرين من علماء المذاهب الأربعة."

(کتاب الصلوٰۃ،باب الوتر والنوافل،ج۲،ص۲۶،ط؛سعید)

کفایت المفتی میں ہے:

”رجب کی ستائیس تاریخ کے روزے کے بارے میں  کوئی صحیح اور پختہ ثبوت نہیں ہے وہ مثل اور ایام کے نفلی روزہ کا ایک دن ہےکوئی خاص اہتمام کرنا اور اس کو ہزاری روزہ سمجھ کر رکھنا بے اصل ہے“

(کتاب الحظر والاباحۃ۔ج۹،ص۶۴،ط؛دار الاشاعت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

”اس شب میں کوئی مخصوص عمل مسنون،جیسا کہ اور راتوں کا حال ہے وہی اس کا حال ہے،اپنی طرف سے کوئی چیز ایجاد نہ کی جائے“

(باب البدعات والرسوم،ج۲۱،ص۱۹۷،ط؛جامعہ فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101169

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں