بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ستائیس رجب میں عبادت سے متعلق


سوال

َ۱۔۲۷رجب المرجب میں عبادات کی بالکلیہ نفی کرنا درست ہے؟جب کہ تبیین العجب میں حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نےبعض احادیث کے حوالے سے ۲۷رجب المرجب میں بعض اعمال کا ذکر کیاہے۔

۲۔اسی طرح ایک روایت  ،شعب الایمان   میں بھی موجود ہے:

"أخبرنا محمّدُ بنُ عبد الله الحافظ، أخبرنا أبو صالح خلَف بنُ محمد ببُخارى، أخبرنا مكيُّ بنُ خلَف وإسحاقُ بنُ أحمد، قالا: حدّثنا نصرُ بنُ الحسين، أخبرنا عيسى وهو الغُنجار، عن محمّدِ بنِ الفضل عن أبانَ عن أنسٍ، عن النبيِّ -صلّى اللهُ عليه وسلَّم-، أنّه قال: فِي رجبٍ ليلةٌ يُكتب للعامل فيها حَسناتُ مائةِ سنةٍ، وذَلك لِثلاثٍ بَقينَ مِن رجبٍ ... إلخ. (شعب الإيمان، رقم الحديث:3531، ط:مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض)"

اس  روایت میں بھی   ۲۷رجب المرجب  میں بعض اعمال کاتذکرہ موجود ہے۔اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا۲۷رجب المرجب میں عبادات کی بالکلیہ نفی کرنا درست ہے؟برائے مہربانی تفصیلی جواب مرحمت فرمائیں۔

۳۔ایک حدیث سنی ہے جس کا مفہوم  اس طرح ہے کہ :’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: فجر کی نماز میں ،یا فجر کی نماز کے بعد مجھ سے جوکچھ مانگنا ہو، مانگ  لیا کرو‘‘۔ اس طرح کی کوئی حدیث یاقول موجود ہے؟اگر موجود ہے تو اس کا حوالہ  اوروضاحت  فرمادیں۔

جواب

۱۔۲۔اولاً تو یہ واضح رہے کہ رجب  کے  مہینے  کے فضائل، اور اُس میں بالعموم کسی بھی دن  روزہ رکھنے،یا کسی مخصوص دن  روزہ رکھنے، یا کسی مخصوص رات میں عبادت کرنے   سے متعلق   جوروايات منقول هيں،  وه سند كے اعتبارسے صحیح اورقابل استدلال   نہیں ہیں،حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں پائی جانے والی مختلف ضعیف اور موضوع روایات کو اپنےرسالہ"تبيينُ العجب بما ورد في شهر رجب"میں  یکجا کیا ہے،رسالہ کے آغاز میں انہوں نے   اس نوع  س کی روایات  کی اسنادی حیثیت پر اجمالاً کلام کیا ہے،بعدازاں  ہرایک روایت  پر تفصیلاً کلام  کرتے ہوئے اسےباطل قراردیاهے۔چنانچہ رسالہ کے آغاز میں لکھتے ہیں:

"لم يردْ في فضلِ شهر رجب، ولا في صِيامِه، ولا في صِيامِ شيءٍ منه معيّنٍ، ولا في قيامِ ليلةٍ مخصوصةٍ فيه، حديثٌ صحيحٌ يَصلحُ للحُجّة".

(تبيين العجب بما ورد في شهر رجب، ص:2)

ترجمہ:

رجب کے مہینے کی فضیلت اور اُس میں(بالعموم کسی بھی دن ) روزہ رکھنے،نیزکسی مخصوص دن   میں روزہ رکھنے،یاکسی مخصوص رات میں عبادت کرنے سے متعلق  ایسی کوئی صحیح حدیث وارد نہیں ہوئی جو قابل ِ استدلال ہو۔

حافظ ابن ِ حجررحمہ اللہ نے ستائیس رجب المرجب میں روزہ  رکھنے اور اس  رات میں مختلف عبادات سے متعلق  پانچ روایات ذکر کیں ہیں، اُن میں سے ایک روایت تو وہی ہے جسے سوال میں  "شعبُ الإيمان للبيهقي"کے حوالے سے نقل کی گئی ہے۔چنانچہ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"وَورد في فضل رجب مِن الأحاديثِ الباطلة، أحاديثٌ لا بأس بالتنبيه عليها؛ لئلاّ يُغترّ بها".

(أيضاً، ص:7)

"ترجمہ:رجب  کے (مہینے  کی)فضیلت میں  بعض  احادیثِ باطلہ وارد ہوئی ہیں، ایسی احادیث پر  متنبہ کرنےمیں کوئی حرج نہیں ،تاکہ اُن  احادیث کےذریعے کسی کو دہوکہ نہ ہو۔"

بعدازاں  اس  طرح کی  احادیثِ باطلہ  کو ذکر کرکے اُن پر تفصیلاً کلام فرمایا ہے، اُنہی  احادیث ِ باطلہ  میں  ۲۷رجب المرجب میں روزہ رکھنے اور اس رات میں مختلف عبادات سے متعلق روایات  پانچ روایات بھی ذکر کی ہیں:

پہلی روایت:

"ومِنها صلاةٌ في رجبَ .... أُنبئتُ عَن يحيى بنِ محمد بنِ سعد، أنبانا عبد الوهاب بنُ زين الأمناء، أنبأنا القاسم بنُ أبى القاسم بنِ أبي القاسم الحافظ بنِ الحافظ، أنبأنا الفقيه أبو الفتح نصرُ الله بنُ محمد الشافعيُّ، أنبأنا نصرُ بن إبراهيم الزاهد، أنبأنا أبو سعيد بُندار بنُ عمر بنِ محمد الرُويانىُّ، أخبرنا أبو محمد عبدُ الله بنُ جعفر الخيازىُّ، أنبأنا الحسنُ علىُّ بنُ محمد بنِ عمر الفقيه بالرّىْ، أخبرنا أبو الحسن عبيدُ الله بنُ خالد، أخبرنا أبو حاتمٍ، أخبرنا ابنُ الأحمر، أخبرنا محمدُ بنُ زياد اليشكُريُّ، أخبرنا مَيمونُ بنُ مِهران عن عبدِ الله بنِ عباسٍ-رضي الله عنهما- أنّه قال: مَن صلّى ليلةَ سبعٍ وعِشرين مِن رجبَ اثنتي عشرةَ ركعةً، يقرأُ في كلِّ ركعةٍ منها بفاتحة الكتاب وسُورةٍ، فإذا فرغَ مِن صلاتِه قرأ فاتحةَ الكتاب سبعَ مرّاتٍ وهو جالسٌ، ثمّ قال: سُبحانَ الله والحمدُ لله ولا إلهَ إلاّ اللهُ واللهُ أكبر ولا حولَ لله ولا قُوّةَ إلاّ باللهِ العليِّ العظيم أربعَ مرات، ثمّ أصبح صائماً، حَطّ اللهُ عنه ذنوبَه سِتين سنةً. وهى الليلةُ التي بُعث فيه محمدٌ -صلّى الله عليه وسلّم-".

(أيضاً، ص:14)

ترجمہ:

’’اُنہی  باطل احادیث میں سے رجب (کے مہینے ) میں نماز ( سے متعلق روایات ) ہیں،۔۔۔(یہاں   حافظ ابن ِ حجر رحمہ اللہ نےدو روایتیں ذ کر کی ہیں،جن میں سے پہلی روایت عام طور پر  رجب میں کسی بھی دن  روزہ رکھنے اوررات میں عبادت کرنےسے متعلق ہے، اور دوسری روایت ۲۷رجب المرجب میں روزہ رکھنے اور اس رات میں عبادت سے متعلق ہے،جویہ ہے):میمون بن مہر ان حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں  کہ انہوں  نے فرمایا:جو شخص ستائیس رجب  کی رات میں بارہ رکعت نماز پڑھے،ہررکعت میں سورہ فاتحہ اور اس کے ساتھ کوئی سورت پڑھے،پھر جب  نماز سے فارغ ہوجائے تو   بیٹھ کر سات مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھے،پھر چار مرتبہ"سُبحانَ الله والحمدُ لله ولَا إلهَ إلاّ اللهُ واللهُ أكبر ولَا حولَ لله ولَا قُوّةَ إلاّ بِاللهِ العلِيِّ العظيم"پڑھے،پھر صبح  روزہ رکھے تو اللہ تعالی اُس کے ساٹھ سال کے گناہ معاف فرمادیں گے۔یہ وہی رات ہے جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث  ہوئے ہیں ‘‘۔

دوسری روایت:

"ومنها: ما أخبرنا أبو الحسن المرداويُّ، بصالحيّة دمشق، أنبأنا أحمدُ بنُ على الجزريُّ وعائشةُ بنتُ محمد بنِ المسلم، قراءةً عليهما وأنا حاضرٌ، وإجازة ابن إبراهيم بنِ خليل الآدميّ، أنبأنا منصورُ بنُ على الطبريُّ ابنا عبدِ الجبار بنِ محمد الفقيه، أنبأنا الحافظُ أبو بكر البيهقيُّ، أنبأنا عبدُ الله الحافظ، أنبأنا أبو نصر رشيق بنُ عبد الله الرُوميُّ، إملاءٌ مِن أصل كتابه بالطابران، حدّثنا الحسينُ بنُ أديس، أخبرنا خالدُ بنُ الهِياج عن أبيه عن سُليمان التيميِّ عن أبى عُثمان عن سلمان الفارسيِّ، قال: قال رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم- :" في رجبَ يومٌ وليلةٌ، مَن صام ذلك اليوم وقام تلك الليلة كان كمن صام مِن الدهر مائةَ سنة، وقام مائةَ سنة، وهو لِثلاثٍ بَقِين مِن رجبَ، وفِيه بعث الله محمدًا".

(أيضاً، ص:21)

ترجمہ:

’’انہی احادیث ِ باطلہ میں سے ہے:۔۔۔ جوابو عثمان حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:رجب (کے مہینے) میں ایک مخصوص دن اوررات ہے، جواس  دن روزہ رکھےاور اس رات میں قیام کرےوہ ایسا ہے گویا اس نے سوسال روزہ رکھا اور سوسال قیام کیا، وہ دن  اوررات رجب کا مہینہ ختم ہونے سے تین دن پہلے(یعنی ستائیس رجب کادن ورات ) ہے، اسی میں اللہ تعالی  نے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مبعوث فرمایا ہے‘‘۔

پھر اس روایت پر  تفصیلاً  کلام کیا ہے، اورسند میں  ایک راوی ’’ہیاج‘‘ کی وجہ سےاسے منکر  کہا ہے، چنانچہ  لکھتے ہیں:

هذا حديثٌ منكرٌ إلى الغاية.وهِياجٌ هو ابنُ بِسطام الهرويُّ، روى عن جماعةٍ من التابعين، وضعفه ابن معين، وقال أبو داود: تركوه. وقال صالح بن محمد الحافظ، الملقّب بجزرة: الهياجُ منكرُ الحديث، لا يُكتب مِن حديثه إلاّ حدِيثان أو ثلاثةٌ للاعتبار، ولم أكنْ أعلمُ أنه بكلٍّ هَذا، حتّى قدِمتُ هراة، فرأيتُ عندهم أحاديثَ مناكيرَ كثيرةً لهم.قال الحاكمُ أبو عبد الله: وهَذه الأحاديثُ التي رآها صالحٌ مِن أحاديث الهياج، الذنبُ فيها لابنِه خالد، انتهى".

ترجمہ:

یہ حدیث منکر ہے۔(سند میں روای ) ہیاج سے مراد ہیاج بن بسطام الہروی ہے،جس نے تابعین کی ایک جماعت سے روایت کی ہے،ابن معین نے اسے ضعیف قراردیا ہے،ابوداود فرماتےہیں:تركوه(یعنی یہ محدثین کے ہاں متروک (شدید کلمہ جرح)ہے)،حافظ صالح بن محمد  ( جوجزرۃ  سے ملقب ہیں،وہ )فرماتے ہیں:ہیاج منکر الحدیث ہے،اس سے دو، یاتین حدیثیں صرف’’ اعتبار ‘‘کے لیے لکھی جائیں گی( جب کسی حدیث کی روایت میں ایک راوی منفرد ہو تو یہ معلوم کرنےکے لیے اس  حدیث کےمزید طرق  تلاش کیاجاتے ہیں کہ اس روایت کو بیان کرنے میں اس راوی  کے ساتھ کوئی اور بھی شریک ہے یانہیں؟، طرق کے تلاش کے اس عمل کو  ’’علوم ِ حدیث ‘‘ کی اصطلاح میں ’’اعتبار‘‘ کہتے ہیں۔تو’’ہیاج‘‘   کی دوتین روایات لکھی جائیں گی وہ  بھی صرف  اس لیے کہ ’’اعتبار‘‘ کاکام دیں)،میں اسے پوری طرح نہیں جانتا تھا،حتی کہ میں  ہرات گیاتو وہاں کے لوگوں کے پاس میں نے بہت سی منکر احادیث دیکھیں( اس  سے مجھے معلوم ہوا کہ یہ تو منکر الحدیث ہے)۔حاکم ابو عبد اللہ ( اس کی وضاحت کرتے ہوئے)فرماتےہیں: صالح نے ہیاج کی جو احادیث (ہرات میں) دیکھیں تھیں، اس میں  قصور (اُن کانہیں،بلکہ)اُن کے بیٹے خالد کا ہے،انتہی‘‘۔

تیسری روایت:

"وروينا قريباً مِن هذا المتن مِن حديث أنسٍ بإسناد مُظلمٍ . رواه البيهقيُّ أيضاً مِن طريِق عيسى غُنجار عن محمّدِ بنِ المفضّل بنِ عطيّة: في رجبَ ليلةٌ يُكتب للعامل فيها حسناتُ مائةِ سنة، وذلك لِثلاثٍ بقِين من رجب، فمنْ صلّى فيها اثنتيْ عشرةَ ركعةً، يقرأُ في كلِّ ركعةٍ فاتحةَ الكتاب وسُورةً مِن القرآن، يتشهّدُ في كلِّ ركعتين، ويُسلِّم في آخرهنَّ، ثمَّ يقول: سُبحان الله ولَا إلهَ إلاّ الله واللهُ أكبر مائةَ مرّةٍ، ويستغفرُ مائة مرّةٍ، ويصلّي على النبيِّ --صلّى الله عليه وسلّم- مائةَ مرّةٍ، ويدعُو لنفسه بِما شاءَ مِن أمر دُنياه وآخرتِه، ويُصبحُ صائماً، فإنّ الله يَستجيبُ دعاءَه كلَّه، إلاّ أنْ يدعوَ في معصيةٍ".

(أيضاً، ص:21)

ترجمہ:

’’اسی متن(یعنی مذکورہ بالا روایت کے متن)کے قریب ہم  نے"إسنادٌ مُظلِمٌ"( ایک تاریک سند) کے ساتھ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث روایت کی ہے۔(امام ) بیہقی رحمہ اللہ نے بھی"عيسى غُنجار، عن محمّد بنِ المفضّل بنِ عطية"کے طریق سےاسے روایت  کیا ہے:رجب(کے مہینے) میں ایک رات ہےجس میں عمل کرنے والے کے لیےسوسال کی نیکیاں لکھی جاتی ہیں،یہ رات رجب (کامہینہ) ختم ہونے سے تین دن پہلے ہے،جوشخص اس میں بارہ رکعت نماز پڑھے،ہررکعت میں  سورہ فاتحہ اور قرآنِ کریم کی کوئی سورت پڑھے،ہر دو رکعت پرتشہد پڑھےمگر سلام  اًُن کےآخر میں پھیرے(یعنی بارہ رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھے)،پھر سومرتبہ"سُبحانَ الله ولا إلهَ إلاّ اللهُ واللهُ أكبر"پڑھے،سومرتبہ استغفار کرے، سومرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھے،اوردنیوی  واُخروی امور سے متعلق اپنے لیے جوچاہے دعاء کرے،پھرصبح روزہ رکھے ،تو اللہ تعالی اس کی ہر دعاء قبول فرمائیں گے،الایہ کہ وہ کسی معصیت کی دعاء کرے(کہ وہ قبول نہ ہوگی)’’۔(یہ وہی روایت ہے جسے سوال میں آپ نے "شعب الإيمان للبيهقي"کے حوالے سے نقل کیا ہے)۔

چوتھی روایت:

"وروينا في جزء من فوائد هناد النسفي بإسنادٍ له منكرٌ، إلى الزهري، عن أنسٍ-رضي الله عنه- قال: قال رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم-: بعثتُ نبيّاً في السابع والعشرين مِن رجبَ، فمن صام ذلك اليوم كان كفّارةَ سِتين شهراً. وقد تقدّم هَذا موقوفاً على ابن عباس في حديثٍ طويلٍ.وروينا في فوائد أبى الحسن بن صخر، بِسندٍ باطلٍ إلى علي بن أبي طالب مثل هذا المتن، لكنْ قال فيه: فمن صام ذلك اليوم ودعا عند إفطاره كانتْ كفارةَ عشر سِنين".

(أيضاً، ص:22)

ترجمہ:

’’اورہم نے"جزء مِن فوائد هنّاد النسفي"میں (امام) زہری رحمہ اللہ   تک "إسنادٌ له منكرٌ"(ان   کی ایک منکر سند سے) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت  کیا ہے،وہ فرماتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں ستائیس رجب کو نبی بن کرمبعوث ہوا ہوں،جو شخص اس دن روزہ رکھے تو وہ روزہ  اس کے لیے ساٹھ مہینوں(کے گناہوں) کا کفارہ ہوگا۔یہ  مضمون پہلے ایک طویل حدیث میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے موقوفاً بھی گزرچکاہے۔ہم نے" فوائد أبى الحسن بن صخر"میں(بھی) حضرت علی رضی  اللہ عنہ سے "بسندٍ باطلٍ"(ایک باطل سند سے)اس جیسا متن روایت کیا ہے،مگر اس میں (یوں)  فرمایا ہے:جو شخص اس دن روزہ رکھے اور افطار کے وقت دعاء کرےتویہ  اس کے دس سال(کے گناہوں ) کاکفارہ ہوگا‘‘(یعنی "جزء مِن فوائد هنّاد النسفي"کیروایت میں صرف روزہ رکھنے کاذکرہےجب کہ اس روایت میں روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ افطار کے وقت دعاء کا بھی ذکر ہے،نیز "جزء مِن فوائد هنّاد النسفي"میں ساٹھ مہینوں کے گناہوں کے کفارہ کا ذکر ہےجب کہ اِس روایت میں دس سال کے گناہوں کے کفارہ کاذکر ہے)‘‘۔

پانچویں روایت:

"وروينا في جزء أبي معاذ الشاة المروزي، وفي " فصائل رجب " لعبد العزيز الكتاني من طريق حمزةَ عن ابن شوذبَ عن مطر الورّاق عن شهرِ بنِ حوشَبٍ عن أبى هريرة - رضي الله عنه - قال: مَن صام يوم سبعٍ وعِشرين من رجبَ كُتب له صِيامُ سِتين شهراً، وهو اليومُ الذي هَبط فيه جبريلُ بالرسالة ". وهذا موقوفٌ، ضعيفُ الإسناد، وهو أمثلُ ما وردَ في هَذا المعنى".

(أيضاً، ص:22)

ترجمہ:

’’ہم نے"جزء أبي معاذ الشاة المروزي"میں روایت کیا ہے،اور "فصائل رجب لعبد العزيز الكتاني"میں "حمزة عن ابنِ شوذبَ عن مطر الورّاق عن شهرِ بنِ حوشَب"کے طریق سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ فرماتےہیں:جو شخص رجب کے ستائیسوےدن روزہ رکھےتو اس کے لیے ساٹھ مہینوں کے روزے لکھے جائیں گے،یہ وہی دن ہے جس میں حضرت جبریل علیہ السلام(پیغامِ)رسالت لےکراترےتھے۔

پھر آخر میں اس روایت پر کلام کرتے ہوئے   لکھتےہیں:

وهذا موقوفٌ، ضعيفُ الإسناد، وهو أمثلُ ما وردَ في هَذا المعنى".

ترجمہ:

۱۔یہ روایت(مرفوع نہیں ،بلکہ) موقوف ہے(یعنی  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست مروی نہیں ،بلکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے )۔۲۔یہ سند کے اعتبار سے (بھی )ضعیف ہے۔۳۔اور یہ اس  مضمون  میں وارد شدہ روایات جیسی  ہی ہے۔

(أيضاً، ص:22)

خلاصہ یہ ہے کہ  حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے "تبيينُ العجب بما ورد في شهر رجب"میں ستائیس رجب میں روزہ رکھنے اور اس رات میں عبادت سے متعلق پانچ روایات ذکر کیں ہیں،  اور ان میں سے ہر ایک  روایت پر کلام فرمایا ہے، چنانچہ پہلی روایت کو ’’ احادیثِ باطلہ‘‘ میں  شمار کیا ہے، دوسری روایت کو  بھی’’ احادیثِ باطلہ ‘‘میں سے شمار کیا ہےاورپھر اس پر تفصیلاً کلام کرتے ہوئے اسے"حديثٌ منكرٌ"(حدیث ِمنکر ) بھی کہا ہے، تیسری روایت کی سند کو "إسنادٌ مُظلِمٌ"( ایک تاریک سند) کہاہے،چوتھی روایت    میں"جزء مِن فوائد هنّاد النسفي"کی سند کو"إسنادٌ منكرٌ"(سند کے اعتبار سے منکر)کہا ہےاورفوائد أبى الحسن بن صخر"کی سند کو "سندٌ باطلٌ"(ایک باطل سند) کہا ہے،پانچویں روایت  کے متعلق تین باتیں فرمائی ہیں:

وهذا موقوفٌ، ضعيفُ الإسناد، وهو أمثلُ ما وردَ في هَذا المعنى".

۱۔یہ روایت(مرفوع نہیں ،بلکہ) موقوف ہے(یعنی  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست مروی نہیں ،بلکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے)۔

۲۔یہ سند کے اعتبار سے (بھی )ضعیف ہے۔

۳۔اور یہ اس  مضمون  میں وارد شدہ روایات جیسی  ہی ہے۔

مذکورہ تفصیل سے یہ معلوم ہوگیا کہ ستائیس رجب  کے دن روزہ رکھنے اور  اس رات میں   کسی مخصوص عبادت سے متعلق روایات میں کلام ہے، اوریہ روایات سند کے اعتبار سے صحیح اور قابل ِ استدلال نہیں ہیں ، اس لیے  ستائیس رجب  کے دن روزہ رکھنا اور اس رات میں کوئی مخصوص عبادت کرنا اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت سمجھنا درست نہیں ہے۔

۳۔ آپ نے جو الفاظ(’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: فجر کی نماز میں ،یا فجر کی نماز کے بعد مجھ سے جوکچھ مانگنا ہومانگ لیا کریں‘‘)ذکر کیے ہیں، بعینہ ان الفاظ سے تو ہمیں کوئی حدیث  تلاش کے باوجود نہیں ملی ، البتہ  "مسند أحمد" میں اس مضمون کی  ایک حدیث موجود ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اللہ عزوجل ہر رات   کو آخری   آدھےحصے،یاآخری تہائی حصے میں  آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں،پھر یہ اعلان فر ماتے ہیں:کون ہے جو مجھ سے کوئی دعا مانگے کہ میں اسے قبول کرلوں؟کون ہے جو مجھ سے  کچھ مانگے کہ میں اسے دوں؟کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے کہ میں اسے بخش دوں؟(اللہ  تعالی کی طرف سے یہ اعلان ہوتارہتا ہے)  یہاں تک کہ طلوعِ فجر ہوجائے، یا قاری صبح کی نماز سے فارغ ہوجائے۔ 

"مسند أحمد"میں ہے:

"حدّثنا يزيد، أخبرنا محمّد عن أبي سلمة عن أبي هريرة-رضي الله عنه- قال: قال رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم-:  ينزلُ الله عزّ وجلّ كلّ ليلةٍ إلى السماء الدنيا لِنصف الليل الآخر - أو لِثلث الليل الآخر - فيقولُ: مَن ذا الذي يَدعُوني فأستجيبَ له؟ مَن ذا الذي يَسألُني فأُعطيَه؟ مَن ذا الذي يَستغفرُني فأغفرَ له؟ حتّى يطلُعَ الفجر، أو ينصرفَ القارئُ مِن صلاة الصبح".

(مسند أحمد، مسند المكثرين من الصحابة، مسند أبي هريرة، 16/320، رقم الحديث:14544، ط:مؤسسة الرسالة)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ  نے بھی"كتاب الأربعين في صفات رب العالمين"میں  یہی  حدیث   ذکر کی ہےمگر اس میں  "مسند أحمد"کی مذکور بالا  حدیث کی نسبت کچھ اختصارہے، چنانچہ  حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"أخبرنا أبو المعالي أحمدُ بن إسحاق بن محمد الأبرقوهيُّ بمصر، أنا أبو الفرج الفتحُ بنُ عبد الله بنِ محمّد، أنا جدِّي أبو الفتح محمدُ بنُ علي، أنا أبو محمد رزقُ الله بنُ عبد الوهاب التميميُّ، أنا أبو الحسين بنُ بشران المعدل، أنا علي إسماعيلُ بنُ محمد النحويُّ، ثنا سعدانُ بنُ نصر، نا يزيدُ بنُ هارون، أنا محمّدُ بنُ عمرو عن أبي سلمة عن أبي هريرة-رضي الله عنه- قال: قال رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم-:  إنّ اللهَ تعالى ينزِل لِنصف الليل -أو ثُلث الليل الأخير- إلى السماء الدنيا، فيقولُ: مَن ذا الذي يدعُوني استجِبْ حتّى ينفجِرَ الفجر، أو ينصرفَ القارئُ مِن صلاة الصبح ".

ترجمہ:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بلا شبہ اللہ تعالی ہر رات   کو آخری   آدھےحصے،یاآخری تہائی حصے میں  آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں،پھر یہ اعلان فرماتے ہیں:کون ہے جو مجھ سے کوئی دعا مانگے کہ میں اسے قبول کرلوں؟(اللہ  تعالی کی طرف سے یہ اعلان ہوتارہتا ہے)  یہاں تک کہ طلوعِ فجر ہوجائے، یا قاری صبح کی نماز سے فارغ ہوجائے۔ 

پھر لکھتےہیں:

"هذا حديثٌ حسنٌ، متفقٌ عليه مِن حديث أبي هريرة وغيره. وقد أفردتُ له جزءاً، وقد ذكرتُ فيه عن أكثر مِن عشرين صحابيّاً عن النبيِّ -صلّى الله عليه وسلّم- نزولَ الربِّ -عزّ وجلّ- بطُرقٍ كثيرةٍ إليهم ... وقد حدّث بهذا الحديث حمّادُ بنُ سلمة فقال: مَن رأيتمُوه يُنكر هذا الحديث فاتِّهمُوه. وقال محمدُ بنُ الحسن صاحبُ أبي حنيفة في الأحاديث التي جاءتْ أنّ الله يهبط إلى سماء الدنيا ونحوِ هذا: إنّ هذه الأحاديث قد روتْها الثقاتُ، فنحن نروِيها ونُؤمنُ بها ولا نفسِّرُها".

(كتاب الأربعين في صفات رب العالمين، السادس في قوله-عليه السلام-:ينزل ربنا كل ليلة، ص:68-69، ط:مكتبة العلوم والحكم- المدينة المنورة)

ترجمہ:

یہ حدیث حسن ہے،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اوردیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے متفق علیہ ہے۔میں نے اس  کے بارے میں ایک مستقل ’’جزٔء‘‘ لکھا ہے،جس میں بیس سے زائد صحابہ رضی اللہ عنہم سے کئی طرق سے ربِ عزوجل کا(آسمانِ دنیا پر) نزول فرمانا  ذکرکیا ہے۔حماد بن سلمہ نے یہ  حدیث بیان کی توفرمانے لگے:جسے  تم اس حدیث کا انکار کرتے ہوئے دیکھو تو اسے متہم قرار دو۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد امام محمد بن الحسن،   اللہ تعالی  کے آسمانِ دنیا پر نزول فرمانے سے متعلق روایات کے بارے میں فرماتے ہیں:بلاشبہ یہ احادیث ثقہ راویوں نے روایات کی ہیں،(ان پر اعتماد کرتے ہوئے)ہم انہیں روایت کرتے ہیں،ہم ان پر ایمان  لاتےہیں اور ان کے متعلق کسی تفسیر  وتقصیل میں نہیں پڑتے۔

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100394

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں