بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ربیع الثانی 1446ھ 11 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

دو بیوہ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی میں تقسیمِ میراث


سوال

میرے دادا فوت ہوگئے ہیں،  ان کی دو بیوائیں ہیں، ایک بیوی سے دو بچےہیں (ایک لڑکا اور لڑکی) اور دوسری  بیوی کے ایک لڑکاجو فوت ہوگیا ہے جوکہ 6 بچوں کے باپ تھا۔ اب دادا کے جائیداد کیسے تقسیم ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کی کل جائے داد  منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحوم کے   حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے اور اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ ہو (مثلاً بیوی کا مہر وغیرہ) تو قرضہ کی ادائیگی کے بعد، اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرنے کے بعد باقی کل جائے داد  منقولہ و غیرمنقولہ کو 48حصوں میں تقسیم کر کے اس میں سے 3،3حصے (یعنی 6 اعشاریہ 25 فیصد) مرحوم کی ہر بیوہ کو، 14حصے (یعنی 29اعشاریہ 16 فیصد) مرحوم کی بیٹی کو، ،28 حصے (یعنی58اعشاریہ 33 فیصد ) مرحوم کے بیٹےکو ملیں گے۔

جس بیٹے کا انتقال مرحوم کی زندگی میں ہوگیا تھا اس کی اولاد (یعنی مرحوم کے پوتے پوتیوں) کو ترکے میں سے بطورِ وراثت کچھ نہیں ملے گا۔ البتہ موجودہ ورثہ کے لیے بہتر ہے کہ اگر مرحوم کے پوتے پوتیوں کو ضرورت ہے تو  ترکے میں سے ازخود کچھ انہیں دے دیں۔

نوٹ: یہ طریقہ تقسیم اس صورت میں ہے جب کہ مرحوم کے والدین مرحوم کے انتقال کے وقت حیات نہ ہوں، اگر والدین دونوں یا ان میں سے کوئی ایک حیات تھا تو پھر جواب مختلف ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200605

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں