بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

چوبیس سال بعد قبر میں دوسری میت دفن کرنا پہلی میت کی بے حرمتی نہیں


سوال

میرے بھانجے کا انتقال 22 جون 2024 کو ہوا، جو پیدائشی معذور تھا، (چلنے پھرنے اور بولنے سے) اور جس کی آخری خواہش کے مطابق اس کی تدفین اس کی دادی کی قبر میں کی گئی، جن کا انتقال 24 سال قبل اگست 2000 میں ہوا تھا، مسئلہ یہ درپیش ہے کہ میرے جیٹھ کے بچوں کو اس بات پر اعتراض ہے کہ آپ نے قبر کی بے حرمتی کی ہے، اور وہ اس کی رپورٹ تھانے میں کر چکے ہیں، اس کے بعد میں نے تھانے میں درخواست جمع کروائی ہے، اس سلسلے میں آپ سے فتویٰ لینا چاہتی ہوں کہ قبر کی بے حرمتی ہوئی یا نہیں؟ راہ نمائی فرما دیں۔

جواب

اگر قبر اتنی پرانی ہوجائے کہ میت کےبالکل مٹی بن جانے کا گمان غالب ہوتو ضرورت کے موقع پر اس قبر میں دوسری میت کو دفن کرنا جائز ہے، اور اگر میت مٹی نہ بنی ہو توایسا کرنا منع ہے، اگر یہ گمان غالب تھا کہ میت اب تک مٹی ہوچکی ہوگی ،لیکن کھدائی کے بعد معلوم ہو کہ میت کی ہڈیاں وغیرہ کچھ قبر میں موجود ہیں تو قبر میں ایک طرف مٹی کی آڑ بناکر علیحدہ رکھ دی جائیں، اگر میت  موجود ہے تو اس میں کسی اور میت کو دفن نہ کیاجائے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر دادی کا انتقال 24 سال پہلے ہوا تھا، پھر 24 سال بعد اس قبر میں پوتے کو دفنایا گیا، تو چوں کہ اتنے عرصہ میں عام طور پر میت مٹی بن چکی ہوتی ہے؛ اس لیے اس کو قبر کی بے حرمتی نہیں کہا جائے گا۔تاہم اس بارے میں مقدمہ بازی کرنا ہر گز جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولا يحفر قبر لدفن آخر إلا إن بلي الأول فلم يبق له عظم إلا أن لا يوجد فتضم عظام الأول ويجعل بينهما حاجز من تراب ... وقال الزيلعي: ولو بلي الميت وصار ترابا ‌جاز ‌دفن ‌غيره ‌في ‌قبره وزرعه والبناء عليه اه."

(‌‌باب صلاة الجنازة، مطلب في دفن الميت، ج:2، ص:233، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)

الموسوعة الفقهيہ الكويتيہ میں ہے:

"نبش قبر الميت لدفن آخر معه"

"يحرم نبش قبر ميت باق لميت آخر، لما في ذلك من هتك حرمة الميت الأول، ومتى علم أو ظن أن الميت بلي وصار رميما جاز نبشه ودفن غيره فيه، ويختلف ذلك باختلاف البلاد والهواء، وهو في البلاد الحارة أسرع منه في البلاد الباردة. وإن شك في ذلك أي أنه بلي وصار رميما رجع إلى قول أهل الخبرة لمعرفة ذلك. فإن حفر فوجد فيها عظاما دفنها في مكانها، وأعاد التراب كما كان ولم يجز دفن ميت آخر عليه. كما أنه يجوز إذا صار الميت رميما الزراعة والحراثة وغيرهما في موضع الدفن إذا لم يخالف شروط واقف، أو لم تكن المقبرة مسبلة. وقال الحنفية: لو بلي الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه."

(الأحكام المتعلقة بالنبش، ج:40، ص:33، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية الكويت)

حاشيہ طحطاوی على مراقي الفلاح میں ہے:

"و سئل أبو بكر الأسكافي عن المرأة تقبر في قبر الرجل فقال إن كان الرجل قد بلى ولم يبق له لحم ولا عظم جاز وكذا العكس."

(كتاب الصلاة‌‌، باب أحكام الجنائز‌‌، فصل في حملها ودفنها، ص:613، ط:دار الكتب العلمية بيروت، لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602100892

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں