بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

۲۲ سال کی قضا نمازوں کا حکم


سوال

 ۲۲ سال كي نمازیں ره جائیں تو کس طرح ادا کی جائیں؟ فدیہ دینا ہو تو ۲۲ سال کا کتنا بنے گا؟

جواب

جس شخص نے زمانہ ماضی میں غفلت کی بنا پر بہت سی نمازیں قضا کی ہوں تو اس کو چاہیے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور سچے دل سے اس جرمِ عظیم پر توبہ و استغفار کرے اور آئندہ کے لیے پکا عزم کرے کہ اب کوئی بھی نماز جان بوجھ کر قضا نہیں کرے گا، توبہ کرنے کے بعد گزشتہ فوت شدہ نمازوں کی قضا پڑھنا بھی لازم ہے، صرف توبہ کرلینے سے فوت شدہ نمازیں ذمے سے معاف نہیں ہوں گی۔

قضا  نمازوں کو ادا کرنے  کا طریقہ یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد  جتنی نمازیں قضا ہوگئی ہیں  اُن کاحساب کرے، اگر قضا نمازوں کی تعداد معلوم ومتعین ہو تو ترتیب سے ان نمازوں کو قضا کرنا چاہیے، اور اگر متعین طور پر قضاشدہ نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہو اور  یقینی حساب بھی ممکن نہ ہو  تو غالب گمان کے مطابق ایک اندازا اور تخمینہ لگالے اورجتنے سالوں یامہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں احتیاطاً اس تعداد سے کچھ بڑھا کر اُسے کہیں لکھ کر رکھ لے، اس کے بعد فوت شدہ نمازیں قضا کرنا شروع کردے، جو فرض نماز فوت ہوئی ہو اس کو قضا کرتے وقت اتنی ہی رکعتیں قضا کرنی ہوں گی جتنی فرض یا واجب رکعتیں اس نماز میں ہیں، مثلاً فجر کی قضا دو رکعت، ظہر اور عصر کی چار، چار اور مغرب کی تین رکعتیں ہوں گی، عشاء کی نماز قضا کرتے ہوئے چار فرض اور تین وتر کی قضا کرنی ہوگی، قضا صرف فرض نمازوں اور وتر کی ہوتی ہے۔ 

قضا  نماز  متعینہ طور پر معلوم ہو تو اس کی نیت  میں ضروری ہے کہ اسے پڑھتے وقت اس کی مکمل تعیین کی جائے، یعنی فلاں دن کی فلاں نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، مثلاً  پچھلے جمعہ کے دن کی فجر کی نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، البتہ اگر متعینہ طور پر قضا نماز کا دن اور وقت معلوم نہ ہو نے کی وجہ سے اس طرح متعین کرنا مشکل ہو تو اس طرح بھی نیت کی جاسکتی ہے کہ مثلاً جتنی فجر کی نمازیں میں نے قضا  کی ہیں ان میں سے پہلی  فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں یا مثلاً جتنی ظہر  کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظہر  کی نماز ادا کر رہا ہوں، اسی طرح بقیہ نمازوں میں بھی نیت کریں، اسی طرح پہلی کے بجائے اگر آخری کی نیت کرے تو بھی درست ہے، مثلاً: یوں کہہ دیں: جتنی فجر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے آخری فجر کی نماز ادا کررہاہوں۔

ایک دن کی تمام فوت شدہ نمازیں یا کئی دن کی فوت شدہ نمازیں ایک وقت میں پڑھ لیں، یہ بھی درست ہے۔

ایک آسان صورت فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی کی  یہ بھی ہے کہ ہر وقتی فرض نمازکے ساتھ اس وقت کی قضا نمازوں میں سے ایک پڑھ لیاکریں، (مثلاً: فجر کی وقتی فرض نماز ادا کرنے کے ساتھ قضا نمازوں میں سے فجر کی نماز بھی پڑھ لیں، ظہر کی وقتی نماز کے ساتھ ظہر کی ایک قضا نماز پڑھ لیا کریں)،  جتنے برس یاجتنے مہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں اتنے سال یامہینوں تک اداکرتے رہیں، جتنی قضا نمازیں پڑھتے جائیں اُنہیں لکھے ہوئے ریکارڈ میں سے کاٹتے جائیں، اِس سے ان شاء اللہ مہینہ میں ایک مہینہ کی اور سال میں ایک سال کی قضا نمازوں کی ادائیگی بڑی آسانی کے ساتھ  ہوجائے گی۔  

نیزقضاءنمازوں  کا فدیہ زندگی میں ادا نہیں  کیا جاسکتااس لئے کہ زندگی میں قضاء کرنے کی طاقت ہوتی ہے اور جب تک قضاء کرنے کی طاقت ہو فدیہ کی گنجائش نہیں ۔  البتہ  انتقال کے بعد فدیہ ادا کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے موت سے پہلے پہلے کوشش کریں کہ ان فوت شدہ نمازوں کی قضا ہوجائے، اور اگر کچھ رہ   جائے تو موت کے وقت  ان کے متعلق وصیت کر جائیں  کہ میری اتنے نمازیں ذمہ پر باقی  ہیں ان کا فدیہ دیا جائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے: 

"(قوله: ولو فدى عن صلاته في مرضه لا يصح)، في التتارخانية عن التتمة: سئل الحسن بن علي عن الفدية عن الصلاة في مرضالموت هل تجوز؟ فقال لا.  وسئل أبو يوسف عن الشيخ الفاني:  هل تجب عليه الفدية عن الصلوات كما تجب عليه عن الصوم وهو حي؟ فقال لا. اهـ. وفي القنية: ولا فدية في الصلاة حالة الحياة بخلاف الصوم. اهـ.أقول: ووجه ذلك أن النص إنما ورد في الشيخ الفاني أنه يفطر ويفدي في حياته، حتى إن المريض أو المسافر إذا أفطر يلزمه القضاء إذا أدرك أياما أخر، وإلا فلا شيء عليه، فإن أدرك ولم يصم يلزمه الوصية بالفدية عما قدر، هذا ما قالوه، ومقتضاه: أن غير الشيخ الفاني ليس له أن يفدي عن صومه في حياته لعدم النص، ومثله الصلاة. ولعل وجهه أنه مطالب بالقضاء إذا قدر، ولا فدية عليه إلا بتحقيق العجز عنه بالموت فيوصي بها، بخلاف الشيخ الفاني؛ فإنه تحقق عجزه قبل الموت عن أداء الصوم وقضائه فيفدي في حياته، ولا يتحقق عجزه عن الصلاة؛ لأنه يصلي بما قدر ولو موميا برأسه".

(كتاب الصلاة،باب قضاء الفوائت، فروع في قضاء الفوائت، ج: ۲، صفحہ: ۲، صفحہ: ۷۴، ط: ایچ، ایم، سعید)

وفیہ ایضاً: 

"كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره.

(قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين؛ لأن فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلاً، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً، أو يقول: آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخراً، ولايضره عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت".

(كتاب الصلاة،باب قضاء الفوائت، فروع في قضاء الفوائت، ج: ۲، صفحہ: ۲، صفحہ: ۷۶، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100102

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں