بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیس رکعات تراویح کا حکم


سوال

20   تراویح کا کیا  حکم  ہے ؟کہا جاتا ہے کہ یہ   حضرت عمر رضی اللہ عنہ   کی  بدعت ہے ؟

جواب

’’تراویح‘‘ بیس رکعات جماعت کے ساتھ رسولِ اکرم ﷺ کے زمانہ میں بھی پڑھی جاتی تھی، یہ حضرت عمر رضی اللہ کے زمانہ میں شروع نہیں ہوئی ہے، مصنف ابن ابی شیبہ ، معجم طبرانی اور بیہقی میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعات پڑھتے تھے۔

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھائی اور آپ کی اقتدا میں لوگوں نے بھی نماز پڑھنا شروع کردی، اگلے  دن لوگ زیادہ ہوگئے، تیسرے دن لوگ جمع ہوئے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم باہر نہ نکلے، جب صبح ہوئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے وہ دیکھا جو تم لوگوں نے کیا،  مجھے تم لوگوں کے پاس آنے سے صرف یہ بات رکاوٹ تھی کہ یہ نماز تم پر فرض کر دی جائے گی، یہ رمضان کا واقعہ تھا۔

اور  ’’صحیح بخاری ‘‘  میں حضرت  زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان المبارک میں ایک الگ جگہ بنائی، وہ چٹائی کا ایک چھپر تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں کئی راتیں نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے آپ کی اقتدا میں نماز پڑھی۔

ان روایات  سے معلوم ہوا کہ باجماعت تراویح کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے، اور اس میں آپ ﷺ کے ساتھ صحابہ کرام نے بھی شرکت کی ہے اور  فرضیت کے اندیشہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عمداًجماعت کی  مداومت نہیں فرمائی۔

عہدِِ صحابہ میں جب یہ اندیشہ نہ رہا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب کو ایک امام پر اکھٹا کرکے باجماعت تراویح کا فیصلہ کیا، حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان سے موافقت کی، اس لیے یہ بہ منزلہ اجماع کے تھا،  چناں چہ ’’موطا امام مالک‘‘  میں ہے کہ  عبد الرحمن بن عبد القاری فرماتے ہیں کہ میں رمضان المبارک کے مہینے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی جانب نکلا، دیکھا کہ لوگ مختلف جماعتوں میں بٹے ہوئے ہیں، کچھ  اکیلے نماز پڑھ رہے ہیں، کچھ کے ساتھ ایک چھوٹی جماعت شریک ہے، یہ دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میری رائے  یہ  ہے کہ اگر یہ لوگ ایک قاری کے  پیچھے جمع ہو کر نماز پڑھیں تو  زیادہ مناسب ہوگا، پھر آپ  نے اس کا پختہ ارادہ فرمایا اور سب کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر جمع فرمایا ، جب ایک دوسری رات میں آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلا تو لوگ اپنے قاری یعنی حضرت ابی بن کعب کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ نیا کام بہت ہی اچھا ہے۔ اور وہ نماز جس کے وقت تم سوتے ہو وہ اس سے بہتر جو تم قائم کرتے ہو، یعنی رات کے آخری پہر کی نماز، اور لوگ اس وقت رات کے ابتدائی حصے میں یہ قیام کیا کرتے تھے۔

اس سے  یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تراویح اور تہجد کو مستقل دو نمازیں سمجھتے تھے۔ نیز اس دور اور اس کے بعد کے ادوار میں مسلمانوں کا یہی عمل تھا،  ’’موطا امام مالک‘‘  میں یزید بن رومان رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں رمضان میں وتر کے ساتھ تئیس رکعات پڑھا کرتے تھے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد کے خلفاء راشدین کے ادوار میں بھی یہی عمل رہا ہے، حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں رمضان میں لوگ بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں شدّتِ قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے۔

 ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ جن کا وصال عہدِ عثمانی کے اواخر میں ہوا ہے، وہ بھی بیس پڑھا کرتے تھے۔ (قیام اللیل ص:۹۱، طبع جدید ص:۱۵۷)

”ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رمضان میں قاریوں کو بلایا، اور ان میں ایک شخص کو حکم دیا کہ بیس رکعتیں پڑھایا کرے، اور وتر حضرت علی رضی اللہ عنہ خود پڑھایا کرتے تھے۔“

خلاصہ یہ ہے کہ بیس رکعات تراویح کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بدعت کہنا درست نہیں ہے، اولًا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ دوسرے خلفۂ راشد ہیں، آپ ﷺ نے خلفاءِ راشدین کے طریقے کی پیروی کا حکم دیا ہے، اگر وہ کوئی عمل شروع کرتے تو بھی ان کی اطاعت از روئے حدیث لازم ہوتی، وہ اصطلاحی معنی میں بدعت نہ کہلاتی، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کسی بھی معاملے میں اپنی جانب سے کوئی قدم نہیں اٹھاتے تھے جب تک کہ انہیں قرآنِ پاک اور رسول اللہ ﷺ کی سنت سے کوئی اصل اور بنیاد نہ مل جائے، آج اس انحطاط کے دور میں بھی ہر صحیح العقیدہ مسلمان  از خود دین میں اضافے کو ناجائز سمجھتا ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ تصور رکھنا کہ وہ دین اور عبادات میں خود اضافہ کریں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی کے حالات سے ناواقفیت کی دلیل ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو معمولی بات پر بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے مشورہ کرکے فیصلہ کرتے تھے، لہٰذا آپ کا بیس رکعات تراویح کا حکم دینا تب ہی درست ہے جب کہ ان کے پاس اس کی اصل رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہو، اور وہ یقینًا ثابت تھی، جیساکہ مصنف ابن ابی شیبہ اور بیہقی وغیرہ کی روایات کے حوالے سے گزرا ہے، یہی وجہ تھی کہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے ان پر اعتراض نہیں کیا کہ آپ نے وہ کام کیا جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا۔

حوالہ جات:

’’عن ابن عباس رضي الله عنه: أن النبي صلي الله عليه وسلم يصلي في رمضان عشرين ركعةً سوی الوتر‘‘.

(المصنف لابن ابی شیبہ ،كتاب صلاة التطوع و الإمامة وأبواب متفرقة، كم يصلي في رمضان ركعة ٢/ ٢٨٦، ط: طیب اکیدمي )

(المعجم الأوسط للطبراني، رقم الحديث: ٧٨٩، (١/ ٢٣٣) و رقم الحديث: ٥٤٤٠، (٤/ ١٢٦) ط: دار الفكر)

’’عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: كان النبي صلي الله عليه وسلم يصلي في شهر رمضان في غير جماعة بعشرين ركعةً و الوتر‘‘.

(السنن الکبری للبیہقی، كتاب الصلاة، باب ما روي في عدد ركعات القيام في شهر رمضان، ٢ ٤٩٦، ط: اداره تالیفات اشرفیه)

’’عن أبي عبدالرحمٰن السلمي عن علي رضی الله عنه أنه دعا القراء في رمضان فأمر منهم رجلًا یصلي بالناس عشرین رکعةً، وکان علي یوتر بهم‘‘.

 (سننِ کبریٰ بیہقی ج:۲ ص:۴۹۶) ۔(منہاج السنۃ ج:۴ ص:۲۲۴)

’’أخبرنا أبوعبدالله الحسین بن محمد الحسین بن فنجویه الدینوري بالدامغان، ثنا أحمد بن محمد بن إسحاق السني، أنبأنا عبدالله بن محمد بن عبدالعزیز البغوي، ثنا علي بن الجعد أنبأنا ابن أبي ذئب عن یزید بن خصیفة عن السائب بن یزید قال: کانوا یقومون على عهد عمر بن الخطاب رضي الله عنه في شهر رمضان بعشرین رکعةً، قال: وکانوا یقرؤن بالمئین، وکانوا یتوکون علی عصیهم في عهد عثمان بن عفان رضي الله عنه من شدة القیام‘‘.

(سننِ کبریٰ ج:۲ ص:۴۹۶)

’’حَدَّثَنِي مَالِك عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ أَنَّهُ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَانِي لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ، فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ، فَقَالَ عُمَرُ: نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ هَذِهِ، وَالَّتِي تَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنْ الَّتِي تَقُومُونَ يَعْنِي آخِرَ اللَّيْلِ وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلَهُ‘‘.

(موطأ مالك 2/ 158)

’’ وحَدَّثَنِي عَنْ مَالِك عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ أَنَّهُ قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً‘‘.

(موطأ مالك 2/ 159)

’’عن زيد بن ثابت: أن النبي صلى الله عليه وسلم اتخذ حجرةً في المسجد من حصير فصلي فيها ليالي، حتى اجتمع عليه ناس، ثم فقدوا صوته ليلةً، وظنوا أنه قد نام، فجعل بعضهم يتنحنح ليخرج إليهم. فقال: ((مازال بكم الذي رأيت من صنيعكم،حتى خشيت أن يكتب عليكم، ولو كتب عليكم ما قمتم به، فصلوا أيها الناس في بيوتكم، فإن أفضل صلاة المرء في بيته إلا الصلاة المكتوبة)). متفق عليه‘‘.

(شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن 4/ 1233)

’’عن عروة بن الزبير عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى في المسجد، فصلى بصلاته ناس، ثم صلى من القابلة، فكثر الناس، ثم اجتمعوا من الليلة الثالثة، فلم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما أصبح، قال: قد رأيت الذي صنعتم، فلم يمنعني من الخروج إليكم، إلا أني خشيت أن تفرض عليكم، وذلك في رمضان، انتهى. وفي لفظ لهما: ولكن خشيت أن تفرض عليكم صلاة الليل، وذلك في رمضان، وزاد البخاري فيه في "كتاب الصيام": فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، والأمر على ذلك، انتهى.... وعن ابن شهاب عن عروة بن الزبير عن عبد الرحمن بن عبد القارئ، أنه قال: خرجت مع عمر بن الخطاب ليلةً في رمضان إلى المسجد، فإذا الناس أوزاع متفرقون، يصلي الرجل لنفسه، ويصلي الرجل، فيصلي بصلاته الرهط، فقال عمر: إني أرى لو جمعت هؤلاء على قارئ واحد لكان أمثل، ثم عزم، فجمعهم على أبي بن كعب، ثم خرجت معه ليلةً أخرى، والناس يصلون بصلاة قارئهم، فقال عمر: "نعمت البدعة هذه، والتي ينامون عنها أفضل عن التي يقومون"، يريد آخر الليل، وكان الناس يقومون أوله، انتهى. وهذا يدل على أنها تركت إلى زمان عمر، دليل أن عمر جمع الناس على أبي بن كعب، والله أعلم، رواه البخاري أيضاً، وعن أبي ذر نحوه، رواه أصحاب السنن، وحسنه الترمذي، وصححه، وعن النعمان بن بشير نحوه، رواه النسائي، قال النووي في "الخلاصة": بإسناد حسن.

أحاديث العشرين ركعةً: روى ابن أبي شيبة في "مصنفه". والطبراني في "معجمه"، وعنه البيهقي من حديث إبراهيم بن عثمان أبي شيبة عن الحكم عن مقسم عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي في رمضان عشرين ركعةً، سوى الوتر، انتهى. ورواه الفقيه أبو الفتح سليم بن أيوب الرازي في "كتاب الترغيب"، فقال: ويوتر بثلاث، وهو معلول، بأبي شيبة إبراهيم بن عثمان، جد الإمام أبي بكر بن أبي شيبة، وهو متفق على ضعفه، ولينه ابن عدي في "الكامل" ... حديث آخر: موقوف، رواه البيهقي في "المعرفة" أخبرنا أبو طاهر الفقيه ثنا أبو عثمان البصري ثنا أبو أحمد محمد بن عبد الوهاب ثنا خالد بن مخلد ثنا محمد بن جعفر حدثني يزيد بن خصيفة عن السائب بن يزيد، قال: كنا نقوم في زمن عمر بن الخطاب بعشرين ركعةً والوتر، انتهى. قال النووي في "الخلاصة": إسناده صحيح، وكأنه ذكره من جهة السنن لا من جهة المعرفة، فإنه ذكره بزيادة.

حديث آخر: رواه مالك في "الموطأ" عن يزيد بن رومان، قال: كان الناس يقومون في زمان عمر بن الخطاب في رمضان بثلاث وعشرين ركعةً. انتهى. ومن طريق مالك، رواه البيهقي في "المعرفة" بسنده ومتنه، وفي رواية في "الموطأ": بإحدى عشرة ركعةً، قال البيهقي: ويجمع بين الروايتين: بأنهم قاموا بإحدى عشرة، ثم قاموا العشرين، وأوتروا بثلاث، قال: ويزيد بن رومان لم يدرك عمر، انتهى‘‘.(نصب الراية 2/ 152) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200470

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں