کیا ایک شخص کسی کو 2000 کا قرضہ اس شرط پر دے کے گندم کے موسم میں ایک بوری گندم کی دے گا جو کہ قیمت میں دو ہزار سے زیادہ ہوگی تو کیا اس صورت میں یہ سود ہوگا یا نہیں؟
واضح رہے کہ قرضہ لینے والا اسی جنس سے قرضہ لوٹانے کا پابند ہوتا ہے جس جنس میں قرضہ لیا ہے لہذا اگر کسی نے 2000 روپے قرضہ لیا تو وہ 2000 روپے قرضہ لوٹانے کا پابند ہوگا، کسی دوسری جنس میں قرض لوٹانے کی شرط طے پاجائے تو بھی اس شرط کا اعتبار نہیں ہوتا لہذا صورت مسئولہ میں اگر اس شرط پر 2000 روپے قرضہ دیا کہ گندم کے موسم میں 2000 روپے سے زائد قیمت کی گندم قرضے میں لوٹائے گا تو یہ شرط معتبر نہیں ہوگی اور 2000 روپے ہی قرضے میں لوٹانا لازم ہوں گے۔ جب مذکورہ شرط معتبر نہیں ہوگی تو اس پر عمل بھی نہیں ہوگا اور سود بھی نہیں ہوگا۔تاہم اس طرح کی شرائط قرضے میں نہیں لگانی چاہیے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ما يبطل بالشرط الفاسد ولا يصح تعليقه به
هاهنا أصلان: أحدهما أن كل ما كان مبادلة مال بمال يفسد بالشرط الفاسد كالبيع وما لا فلا كالقرض."
(كتاب البيوع، باب المتفرقات من أبوابها، ج5، ص240، سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144502101748
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن