بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو تولہ سونے پر زکاۃ کا حکم


سوال

اگر دو تولے سونا ہو تو کیا اس پر زکوٰۃفرض ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا، اور صرف چاندی ہو تو  ساڑھے باون تولہ چاندی،  یاساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر نقدی  یا سامانِ تجارت ہو ،  یا یہ سب ملا کر یا ان میں سے بعض ملا کر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب کے برابر بنتی ہو تو ایسے  شخص پر  سال پورا ہونے پر قابلِ زکاۃ مال کی ڈھائی فیصد زکاۃ ادا کرنا لازم ہے۔

  زکاۃ کا مدارصرف ساڑھے سات تولہ سونے پراس وقت ہے کہ جب کسی اور جنس میں سے کچھ پاس نہ ہو، لیکن اگر سونے کے ساتھ ساتھ کچھ اور مالیت بھی ہے تو پھر زکاۃ کی فرضیت کا مدار ساڑھے باون تولہ چاندی پرہوگا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر دو تولہ سونے کے علاوہ مذکورہ شخص کے پاس ضرورت سے زائد اور کچھ بھی نہیں ہے تو اس پر زکاۃ واجب نہیں ہے اوراگر ضرورت کے پاس کچھ نقد یا کچھ چاندی یا مالِ تجارت موجود ہے تو اس شخص پر زکاۃ واجب ہوجائے گی ۔

بدائع الصنائعمیں ہے:

"أما الأثمان المطلقة وهي الذهب والفضة أما قدر النصاب فيهما فالأمر لا يخلو إما أن يكون له فضة مفردة أو ذهب مفرد أو اجتمع له الصنفان جميعا، فإن كان له فضة مفردة فلا زكاة فيها حتى تبلغ مائتي درهم وزنا وزن سبعة فإذا بلغت ففيها خمسة دراهم."

(كتاب الزكاة، فصل الأثمان المطلقة وهي الذهب والفضة، 2/ 100 ط: دار إحياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100227

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں