بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک نماز کے پورے وقت میں قطرے آئیں ااورباقی نمازوں کے اوقات میں کچھ دیر تک آنے کے بعد بند ہوجائیں توکیا یہ شخص معذور شمارہوگا؟


سوال

اگر کسی کو زیرِ ناف بال کاٹنے کے بعد پیشاب کے قطروں کا تقریباً ایک دن تک مسئلہ ہو تاہو،کہ ہر دفعہ جب وہ بال اتارے تو مسئلہ شروع ہو جاتا ہو اور ایک دن میں ایک نماز میں تو سارا وقت قطرے گریں،مگر باقی نمازوں میں بس ہر نماز کے وقت  دس منٹ تک یا اس سے کم و بیش قطرے گرکربندہوجا تے ہوں تو کیا وہ معذور شمار ہوگایانہیں ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  سائل جب زیرِناف بال صاف کرنے کے بعدپیشاب کرتاہےتواس کوایک نماز کےپورے  وقت میں قطرے آتے ہیں ،جب کہ باقی نمازوں کے اوقات  میں پیشاب کرنے کے بعدصرف 5/10منٹ قطرے آتے ہیں پھر بند ہوجاتےہیں،اس لیے سائل کوچاہیے کہ فجر کی نمازپڑھنے کے بعد زیرِناف بال صاف کرےپھراس کے بعد پیشاب کرے ،اب پیشاب کرنے کے بعد اُس کواگرقطرے آئیں گے توکوئی حرج نہیں ہوگا،کیوں کہ ظہر کی نمازکا وقت داخل ہونے تک پھر کوئی نماز نہیں ہے، پھرجب ظہر کی نماز کاوقت داخل ہوجائے توپہلے وضو کرکے نماز پڑھے اس کے بعد پیشاب کرے ،اسی طرح باقی نمازوں میں بھی پہلے نماز پڑھے اُس کے بعد پیشاب کرے۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة)بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث (ولو حكما) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لأنه الانقطاع الكامل."

(كتاب الطهارة،باب الحيض،مطلب في احكام المعذور،305/1، ط: سعید)

ہندیہ میں ہے:

"(ومما يتصل بذلك أحكام المعذور) شرط ثبوت العذر ابتداء أن يستوعب استمراره وقت الصلاة كاملا وهو الأظهر كالانقطاع لا يثبت ما لم يستوعب الوقت كله حتى لو سال دمها في بعض وقت صلاة فتوضأت وصلت ثم خرج الوقت ودخل وقت صلاة أخرى وانقطع دمها فيه أعادت تلك الصلاة لعدم الاستيعاب. وإن لم ينقطع في وقت الصلاة الثانية حتى خرج لا تعيدها لوجود استيعاب الوقت.وشرط بقائه أن لا يمضي عليه وقت فرض إلا والحدث الذي ابتلي به يوجد فيه هكذا في التبيين."

(كتاب الطهارة، الباب السادس في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الرابع في أحكام الحيض والنفاس والاستحاضة،40/1، ط: رشيدية)

وفیہ ایضًا:

" متى قدر المعذور على رد السيلان برباط أو حشو أو كان لو جلس لا يسيل ولو قام سال وجب رده ويخرج برده عن أن يكون صاحب عذر بخلاف الحائض إذا منعت الدرور فإنها حائض. كذا في البحر الرائق."

(كتاب الطهارة، الباب السادس في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الرابع في أحكام الحيض والنفاس والاستحاضة،41/1،ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100792

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں