بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اہل بدعت کی مجالس میں اصلاح کی خاطر شرکت کرنے کا حکم


سوال

دیوبندی مدارس کے فضلاء اہل بدعت کے متعلق تین گروہ میں بٹ گئے ہیں:

1:وہ فضلاء جو اہل بدعت  کی طرح مباحث حقیقت ومجاز کوسامنے رکھ کراہل بدعت کے لیے اموات کے پکارنے کو جائز سمجھتے ہیں۔

2:وہ فضلاء جو بدعات اور شرکیات کو ختم کرنے کی خاطر اہل بدعت کےہمنوا ہوئے ہیں، اور ان کی مجالس ومحافل میں شرکت بھی کرتے ہیں اور ان کی بدعات( تیجہ،چالیسواں، جشن میلاد نبی  وغیرہ  ) کے متعلق فتوی دینے سے بھی احتراز کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ: ہم ان کی مجالس میں اس لیے شرکت کرتے ہیں کہ جب مناسب وقت ہمیں میسر ہو تو ہم ان کی اصلاح کریں، اور توحید کی طرف مائل کریں۔

3:وہ فضلاء(ان کی تعداد بہت کم ہے)قاطعیت اور نرمی کے ساتھ شرعی مسائل بیان کرتے ہیں اور جو کہتے ہیں اس پر عامل بھی ہیں، اور حق کہنے سے بلکل باز نہیں آتے، اب آپ سے چند سوالات کرنی ہیں:

1:کیا  اصلاح اور تبلیغ دین کی خاطر اہل بدعت کی مجالس میں شرکت کرنااور ان سے اختلاط کرنا شرعا جائز ہے؟

2:ہم کس جماعت کی اتباع کریں، وہ جماعت جو اہل بدعت کے ساتھ ان کی اصلاح کی خاطر اختلاط کرتی ہے یا وہ جماعت جو اس اختلاط کو بھی ناجائز سمجھتی ہے اور ان سے اجتناب کرتی ہے؟

3:کیا حقیقت ومجاز کی بحث کو سامنے رکھتے ہوئے مردوں کو پکار ناجائز ہے؟

جواب

(1-2)سوال میں مذکورہ اعمال ( تیجہ،چالیسواں، جشن میلاد نبی  وغیرہ  ) کا شریعت مقدسہ میں کوئی ثبوت نہیں،  ایسے اعمال سے بچنا، دوسروں کوبچانا اور شریعت مقدسہ کے دامن کو ان سے پاک کرنا ہر عالم بلکہ ہر مسلمان پر لازم اور ضروری ہے،ہمارے اکابرین اورعلماءِ  دین  ہر دور میں بدعتیوں کے ساتھ میل جول رکھنے سے اور ان کے بدعات میں شرکت کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے،  ملا علی قاری رحمہ اللہ حدیث  (لاتجالسوا أهل القدر)  کی تشریح کرتے ہوئے  فرماتے ہیں کہ: " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بدعتیوں کے  ساتھ  ہم مجلس ہونے سے منع فرمایا؛ کیوں کہ ان کے ساتھ ہم مجلس ہونا اور میل جول رکھنا ان سے محبت کی علامت ہے اور  ان سے محبت کرنا انس رکھنا انسان کو یاتو   اپنے باطل اور شیطانی دلائل کی بنیاد پر  ان کی بدعات  کی طرف دعوت  دے گا یا ان کے برے عمل کی وجہ سے آدمی کا دل متاثر ہو گا"، اور اگر ان دونوں خرابیوں میں  کوئی خرابی نہ پائی جائے تو یہ خرابی بہرحال رہے  گی کہ  عوام الناس جب اہلِ  حق کو اہلِ  بدعات کی مجلسوں میں دیکھیں گے تو وہ یہ سمجھیں گے کہ یہ کام درست ہے،  وگرنہ یہ لوگ اس میں شریک نہ ہوتے۔

صورتِ مسئولہ میں  جو جماعت ان مروجہ  بدعات کی مجالس میں شرکت کرنے سے منع کرتی ہے، ان کی  بات  درست اور وزنی ہے اور شریعت کے موافق ہے،یعنی ان بدعتیوں کے  بدعات میں شرکت کرنا کسی صورت میں  شرعا جائز نہیں، اور اسی جماعت کی اتباع کرنی چاہیے، ہر مسلمان شریعت کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق تبلیغ   اور اصلاح کامکلف ہے ، خود کو بدعات اور گناہوں میں مبتلا کرکے دین کی دعوت دینے کا مکلف نہیں، اس بارے میں حضرت مولانا محمدیوسف بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :

” ہم لوگ (مسلمان) اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو لوگوں کو پکا مسلمان بناکر چھوڑیں گے، ہاں! اس بات کے مکلف ضرور ہیں کہ تبلیغِ دین کے لیے جتنے جائز ذرائع اور وسائل ہمارے بس میں ہیں، ان کو اختیار کرکے اپنی پوری کوشش صرف کردیں، اسلام نے جہاں ہمیں تبلیغ کا حکم دیا ہے، وہاں تبلیغ کے باوقار طریقے اور آداب بھی بتائے ہیں، ہم ان آداب اور طریقوں کے دائرے میں رہ کر تبلیغ کے مکلف ہیں، اگر ان جائز ذرائع اور تبلیغ کے ان آداب کے ساتھ ہم اپنی تبلیغی کوششوں میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ عین مراد ہے، لیکن اگر بالفرض ان جائز ذرائع سے ہمیں مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ناجائز ذرائع اختیار کرکے لوگوں کو دین کی دعوت دیں اور تبلیغ کے آداب کو پسِ پشت ڈال کر جس جائز وناجائز طریقے سے ممکن ہو، لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں، اگر جائز وسائل کے ذریعے اور آدابِ تبلیغ کے ساتھ ہم ایک شخص کو دین کا پابند بنادیں گے تو ہماری تبلیغ کامیاب ہے اور اگر ناجائز ذرائع اختیار کرکے ہم سو آدمیوں کو بھی اپنا ہم نوا بنالیں تو اس کامیابی کی اللہ کے یہاں کوئی قیمت نہیں، کیوں کہ دین کے احکام کو پامال کر کے جو تبلیغ کی جائے گی وہ دین کی نہیں کسی اور چیز کی تبلیغ ہوگی۔“

( از محدث العصر  مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ،بحوالہ نقوشِ رفتگاں، ص:104ط: مکتبۂ معارف القرآن) 

(3)  اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور  کو ماوراء الاسباب پکارنا یا اس سے مدد طلب کرنا یا اس کو ہر چیز میں بااختیار سمجھ کر  یا فلان مدد وغیرہ کلمات سے خطاب کرنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ ہر کام کرنے پر قادر ہے اور تصرف کرسکتاہے    ناجائز اور شرک ہے،البتہ محض ذہنی پرواز اور تخیلاتی طور پرجیسے کہ شعراء کا اسلوب ہے اگر پکارا جائے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن  اہل بدعت  جن کو  اپنی مجالس میں:  یا رسول اللہ، یا علی مدد، یا غوث اعظم  وغیرہ  کہہ کر  پکار تے ہیں اپنے فاسد عقائد کی بنیاد پر ان   کو حاضر وناظر  سمجھتے ہیں اور ان سے مدد  بھی مانگتے ہیں جو  کہ سراسر شرکیہ اعمال ہیں  اور شریعت کے احکام سے متصادم ہیں،غرض یہ کہ یارسول اللہ ، یا غوث، وغیرہ اس عقیدہ سے کہنا کہ اللہ کی طرح یہ حضرات بھی ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں یا ہماری ہر پکار اور فریاد کو سنتے ہیں اور حاجت روا ہیں ، جائز نہیں ہے،اگر یہ عقیدہ نہ ہو تب بھی موہم شرک ہونے کی وجہ سے اس سے اجتناب کرنا لازم ہے  ۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن عمر رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( «‌لا ‌تجالسوا ‌أهل القدر» ) : بضم أوله أي: لا تواددوهم، ولا تحابوهم، فإن المجالسة ونحوها من المماشاة من علامات المحبة وأمارات المودة، فالمعنى لا تجالسوهم مجالسة تأنيس وتعظيم لهم لأنهم إما أن يدعوك إلى بدعتهم بما زينه لهم شيطانهم من الحجج الموهمة، والأدلة المزخرفة التي تجلب من لم يتمكن في العلوم والمعارف إليهم ببادي الرأي، وإما أن يعود عليكم من نقصهم وسوء عملهم ما يؤثر في قلوبكم وأعمالكم؛ إذ مجالسة الأغيار تجر إلى غاية البوار ونهاية الخسار. قال تعالى: {ياأيها الذين آمنوا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين} [التوبة: 119] و لاينافي إطلاق الحديث تقييد الآية في المنافقين حيث قال الله تعالى: {فلا تقعدوا معهم حتى يخوضوا في حديث غيره إنكم إذا مثلهم} [النساء: 140] وكذا قوله عز وجل: {وإذا رأيت الذين يخوضون في آياتنا فأعرض عنهم حتى يخوضوا في حديث غيره} [الأنعام: 68] فلم ينه عن مجالستهم مطلقًا؛ لأنّ الحديث يحمل على من لم يأمن على نفسه منهم؛ فيمنع عن مجالستهم مطلقًا، والآية على من أمن فلا حرج عليه في مجالسته لهم بغير التأنيس، والتعظيم ما لم يكونوا في كفر، وبدعة، وكذا إذا خاضوا وقصد الرد عليهم وتسفيه أدلتهم، ومع هذا؛ البعد عنهم أولى، والاجتناب عن مباحثتهم أحرى."

[كتاب الإيمان، باب الإيمان بالقدر، ج:1، ص:182،ط:دار الفكر بيروت]

تفسیر قرطبی میں ہے:

"قوله تعالى: (فلا تقعدوا معهم حتى يخوضوا في حديث غيره) أي غير الكفر. (إنكم إذا مثلهم) فدل بهذا على وجوب اجتناب أصحاب المعاصي إذا ظهر منهم منكر، لأن من لم يجتنبهم فقد رضي فعلهم، والرضا بالكفر كفر، قال الله عز وجل: (إنكم إذا مثلهم). فكل من جلس في مجلس  معصية ولم ينكر عليهم يكون معهم في الوزر سواء، وينبغي أن ينكر عليهم إذا تكلموا بالمعصية وعملوا بها، فإن لم يقدر على النكير عليهم فينبغي أن يقوم عنهم حتى لا يكون من أهل هذه الآية ... و إذا ثبت تجنب أصحاب المعاصي كما بينا فتجنب أهل البدع والأهواء أولى...وروى جويبر عن الضحاك قال: دخل في هذه الآية كل محدث في الدين مبتدع إلى يوم القيامة."

[ج:5، ص:418، ط: دار الكتب المصرية]

روح المعانی میں ہے:

"قوله تعالى: (وإذا رأيت الذين يخوضون في آياتنا فأعرض عنهم) ... و استدل بعضهم بالآية على تحريم مجالسة الفساق والمبتدعين من أي جنس كانوا، وإليه ذهب ابن مسعود وإبراهيم وأبو وائل، وبه قال عمر بن عبد العزيز، وروى عنه هشام بن عروة أنه ضرب رجلا صائما كان قاعدا مع قوم يشربون الخمر، فقيل له في ذلك: فتلا الآية."

[ج:3، ص:167، ط:دار الكتب العلمية]

حقیقۃ السنۃ والبدعۃ میں ہے:

"وقال أبو الحسن البغوي: قد مضت الصحابة و التابعون و أتباعهم و علماء السنة ‌على ‌معاداة ‌أهل ‌البدع ‌و مهاجرتهم، و قال أبو قلابة: لاتجالسوا أصحاب الأهواء، فإني لا آمن من أن يغمسوكم في ضلالهم ويلبسوا عليكم بعض ما تعرفون."

[فصل في ذم البدع والأهواء، ص:84، ط: مطابع الرشيد.]

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"الثاني ‌أن ‌الناس ‌قد ‌أكثروا من دعاء غير الله تعالى من الأولياء الأحياء منهم والأموات وغيرهم، مثل يا سيدي فلان أغثني، وليس ذلك من التوسل المباح في شيء، واللائق بحال المؤمن عدم التفوه بذلك وأن لا يحوم حول حماه، وقد عده أناس من العلماء شركا وأن لا يكنه، فهو قريب منه ولا أرى أحدا ممن يقول ذلك إلا وهو يعتقد أن المدعو الحي الغائب أو الميت المغيب يعلم الغيب أو يسمع النداء ويقدر بالذات أو بالغير على جلب الخير ودفع الأذى وإلا لما دعاه ولا فتح فاه، وفي ذلك بلاء من ربكم عظيم، فالحزم التجنب عن ذلك وعدم الطلب إلا من الله تعالى القوي الغني الفعال لما يريد."

[ج:3، ص:298، ط:دار الكتب العلمية]

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"زید کے لیے مصالح مدرسہ کی خاطر ان مجالس بدعت میں شرکت کرنا جائز نہیں، یہ ایسا ہوگیا جیسا کہ باجے بجاکر لوگوں کو جمع کیا جائے اور پھر انھیں نماز کی طرف دعوت دی جائے اس کی اجازت نہیں۔"

(باب البدعات والرسوم، ج:3، ص:245، ط:ادارۃ الفاروق کراچی)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال: کیا اولیائے کرام کو اٹھتے بیٹھتے پکارنا جیسا کہ:"یا غوث الاعظم المدد"یا بڑا پیر جائز ہے یا کھلا ہوا شرک ہے؟۔ جواب:ان اعتقادات اور اعمال سے ایمان سلامت نہیں رہتا اس عقیدہ کو فقہاء نےکفر لکھا ہے: (ويكفر بقوله: أرواح المشائخ حاضرة تعلم) [مجمع الأنهر]۔"

(کتاب العقائد، باب مایتعلق بالاستمداد بغیر اللہ  ، ج:۱، ص:۳۶۲، ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143904200063

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں