بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹی سے زنا کرنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟


سوال

اسلام اور بالخصوص احناف میں محرم یعنی بیٹی سے زنا کا کیا حکم ہے ،  اس سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟

جواب

 اگر باپ بیٹی سے زنا کرے تو  اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہو گی، شوہر پر اپنی بیوی   ہمیشہ کے   لیے حرام ہوجائے گی ، اور میاں بیوی میں ازدواجی تعلق قائم کرنا حلال نہیں رہے گا ، لیکن نکاح نہیں ٹوٹے گا، برقرار ہوگا۔ اس  لیے یہ عورت اس واقعہ کے بعد اس وقت تک دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکتی  جب تک کہ درج ذیل دو باتوں میں سے کوئی ایک بات نہ پائی جائے :

الف :                       شوہر بیوی کو متارکت کے ذریعہ علیحدہ نہ کرے یعنی:  شوہر اپنی زبان سے کہہ دے کہ : ’’ میں نے تجھے چھوڑدیا ‘‘   اس کے بعد پھر عدت ( تین ما ہواری ) گزر جائے تو اب وہ دوسری جگہ نکاح کی مجاز ہوگی ۔

ب :                                  اگر شوہر نہ چھوڑے ،  لیکن عورت مسلمان عدالت میں مقدمہ دائر کرے اور گواہوں کے ذریعہ واقعہ کے ثبوت پر عدالت ان میں تفریق کا فیصلہ کردے تو  عدت کے بعد وہ عورت دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے ۔ اس کارروائی کے بغیر اس عورت کے  لیے دوسرا نکاح کبھی بھی حلال نہ ہوگا ۔

اور  باپ بیٹی کا اگرچہ رشتہ برقرار ہے، تاہم مذکورہ شخص کے ساتھ بیٹی کا رہنا اب  درست نہیں۔

الدر المختار  میں ہے:

"(و) حرم أيضا بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام."

(الدر المختار مع رد المحتار: كتاب النكاح، فصل في المحرمات (3/ 32)، ط.  سعيد)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"و بحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة."

(وفي الشامیة):

"(قوله: وبحرمة المصاهرة إلخ) قال في الذخيرة: ذكر محمد في نكاح الأصل أن النكاح لا يرتفع بحرمة المصاهرة والرضاع بل يفسد حتى لو وطئها الزوج قبل التفريق لا يجب عليه الحد اشتبه عليه أو لم يشتبه عليه.اهـ .(قوله: إلا بعد المتاركة) أي، وإن مضى عليها سنون كما في البزازية، وعبارة الحاوي إلا بعد تفريق القاضي أو بعد المتاركة. اهـ.

وقد علمت أن النكاح لا يرتفع بل يفسد وقد صرحوا في النكاح الفاسد بأن المتاركة لا تتحقق إلا بالقول، إن كانت مدخولا بها كتركتك أو خليت سبيلك، وأما غير المدخول بها فقيل تكون بالقول وبالترك على قصد عدم العود إليها.وقيل: لا تكون إلا بالقول فيهما، حتى لو تركها، ومضى على عدتها سنون لم يكن لها أن تتزوج بآخر فافهم."

 (الدر المختار مع رد المحتار: كتاب النكاح، فصل في المحرمات (3/ 32)، ط.  سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201544

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں