بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک بیٹے کو حصہ نہ دینا


سوال

 میری شادی کے بعد میرے گھر والوں خاص کر میرے بھائیوں کا رویہ ناقابل برداشت ہوگیا، اسی بنا پر  میں والدین کے مرضی سے پرانا گولی  مار کرایہ کے مکان میں شفٹ  ہوگیا، اس وقت میری بیوی بھی چار ماہ سے حاملہ تھی، اس کے باوجود مجھے گھر سے بے دخل کردیا، اب میں دو بچوں  کا باپ  بن گیا ہوں، ان کے اخراجات پرائیویٹ ہسپتال سے میں نے خود ادا کیے ہیں،اب میں گھر اور بیوی بچوں کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتا،جس مکان میں ہم والد کے ساتھ رہائش پزیر تھے،وہ گھر اس طرح معرضِ وجود میں آیا کہ والد صاحب کا ایک پلاٹ  تھا، ہم تین بھائی محنت مزدوری کرتے  تھے، جو پیسہ کماتے تھے، والد صاحب کو دےکر وہ اس سے مکان تعمیر کرتے تھے، اسی طرح یہ مکان مکمل ہوا ، ایک گھر میں ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے   ہم نے کوئی معاہدہ نہیں کیا کہ یہ رقم بطورِ قرض ہے یا بطورِ شراکت ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر والد تحریری طور پر مجھے بے دخل کردیا ہے اور اس مکان میں  میرے حصے سے مجھے محروم کردیا  تو شریعت کا کیا حکم ہے ؟ کیا شرعًا بھی میرا اس مکان میں کوئی حصہ نہیں ہوگا؟  کیا والد کی زندگی  اور انتقال کے بعد   دونوں صورتوں میں میرا اس مکان میں کوئی حصہ نہیں ہوگا؟وضاحت: والد ابھی حیات ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل نے والد کے پلاٹ پر تعمیرات کے لیے والد کو رقم  شرکت یا قرض کے معاہدہ کے بغیر کے بغیردی تھی تو یہ رقم سائل کی طرف سے تبرع اور احسان ہے، سائل کے لیے اس رقم کے مطالبے کا حق نہیں ،البتہ   اگر واقعۃً سائل کے والد نے سائل کو گھر سے بے دخل کیا،تو ایسا کرنا شرعًا والد کے لیے درست نہیں تھا، والد کے لیے یہ حکم ہے  کہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ  ایک جیسا سلوک کرے،ایک بیٹے کے ساتھ  ایک طرح اور دیگر اولاد کے ساتھ  الگ سلوک کرنا جائز نہیں، سائل کے والد نے جب اپنی دیگر اولاد کو  اپنے گھر میں  رہائش دی ہے، تو سائل کے ساتھ بھی اسی طرح سلوک کرتے ہوئے رہائش دے یا اس کے لیے رہائش کا  بندوبست کرے،جب کہ سائل نے والد سے تبرع و احسان کا معاملہ بھی کیا تو سائل زیادہ حقدار ہے۔

سائل کے والد کا    سائل کو اپنے گھرسے تحریری طور  پر عاق کرنے کی شرعًا کوئی حیثیت نہیں،والد کے انتقال  کے بعد  سائل اپنے حصے کا حق دار ہوگا، تاہم والد کی زندگی میں  یہ مکان والد کی ملکیت  ہے، اس میں سائل یا   سائل کے والد کے ورثاء کا کوئی حق نہیں۔

تکملہ رد المحتار میں ہے:

" الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط ".

(کتاب الدعوی، باب التحالف، فصل في دفع الدعاوی  7/ 505 ،ط. سعید)

مشكاة المصابيح  میں ہے:

"عن أنس قال : قال رسول اللّه صلی  الله عليه وسلم : «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة" . رواه ابن ماجه.

(باب الوصایا، 266،1،ط: قدیمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100383

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں