بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 رجب 1446ھ 14 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

جاؤ تم آزاد ہو، جو مرضی کرو سے طلاق کا حکم


سوال

ہماری تقریباً تین مہینے پہلے  لڑائی ہوئی تھی، لڑائی میں بیوی نے کہا "اگر تمہیں مجھ سے اتنی پریشانی ہے تو آزاد کیوں نہیں کرتے ؟ "، میں نے کہا کہ "جاؤ تم آزاد ہو،اپنی مرضی کی مالک ہو، جو چاہو کرو۔"

ابھی تین دن پہلےمیری اور اہلیہ کی کسی بات پر لڑائی ہوئی، تو میری اہلیہ نے غصہ میں یہ بات کہی کہ اگر اتنا مسئلہ ہے تو مجھے آزاد کیوں نہیں کرتے؟ میں نے بھی ٖغصہ میں بیوی کو جواب دیا کہ" میری طرف سے تم آزاد ہو، جاؤ  یہاں سے، بولو تو اٹھ کے دروازہ بھی کھول دیتا ہوں" اور یہ الفاظ میں نے دوبار  ادا کئے۔اب شریعت کی روشنی میں آگاہ فرمائیں کہ اس سے طلاق ہوئی یا نہیں؟ اور اگر ہوئیں تو کتنی طلاقیں ہوئیں؟

جواب

صورت مسئو لہ میں   سائل   نےجب تین ماہ قبل پہلی مرتبہ   اپنی بیوی کو یہ ا لفاظ  کہے تھے کہ  "جاؤ تم آزاد ہو،اپنی مرضی کی مالک ہو، جو چاہو کرو۔" تواس سےبیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوگئی تھی، جس کے سبب سائل کے لیے اس سے رجوع کرنا ، اور میاں بیوی کی حیثیت سے ساتھ رہنا جائز نہیں تھا، لہذا اب تک جو ساتھ رہے اس پر صدقِ دل سے توبہ و استغفار کرنا لازم ہوگا، اس دوران سائل نے دوسری مرتبہ جو یہ الفاظ کہے تھے کہ (میری طرف سے تم آزاد ہو، جاؤ  یہاں سے ، بولو تو اٹھ کے دروازہ بھی کھول دیتا ہوں) ان سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، پس اگر سائل اپنی مطلقہ بیوی کے ساتھ دوبارہ  رہنا چاہتا ہوں ، تو باہمی رضامندی سے سے نئے مہر کے تعین کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہوگا ، نکاح کے بعد سائل کے پاس صرف دو طلاقوں کا حق ہوگا۔

فتاوی دار العلوم دیوبند از مفتی عزیز الرحمن عثمانی میں ہے:

"سوال :عورت اور اس کے شوہر میں جھگڑا ہوا کرتا تھا۔ ایک روز جھگڑا طویل ہو گیا اور عورت نے اپنے خاوند سے کہا کہ تو مجھ کو آزاد کر دے اور فارغ خطی لکھدے اور میں نے اپنا دین مہر بھی چھوڑا اور اولاد بھی ۔ اُس کے شوہر نے فارغ خطی لکھدی اور تین مرتبہ لفظ آزاد بھی کہہ دیا۔ پندرہ دن کے بعد عورت پھر اسی خاوند کے یہاں آگئی۔ ایسی صورت میں اُس کو اُس کا رکھنا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب : اس صورت میں عورت پر طلاق بائنہ واقع ہو گئی ہے۔ لیکن اگر شوہر نے صریح لفظ طلاق تین دفعہ نہیں کہا بلکہ آزاد کرنے کا لفظ تین دفعہ کہا ہے تو اس سے ایک طلاق بائنہ واقع ہوتی ہے۔ جیسا کہ درمختار میں ہے کہ بائنہ کے بعد دوسری بائنہ واقع نہیں ہوتی اور ایک طلاق بائنہ کے بعد شوہر اول بدون حلالہ کے اُس عورت سے نکاح کر سکتا ہے ۔ عدت میں بھی اور بعد عدت کے بھی کی۔ پس اگر واقعہ یہی ہے تو شوہر اول اُس سے پھر نکاح کر لیوے۔ اور اگر شوہر نے تین طلاق صریح لفظ طلاق کے ساتھ دی ہیں تو پھر بدون حلالہ کے شوہر اول اُس سے نکاح نہیں کر سکتا ہے۔"

( کتاب الطلاق، باب چہارم: کنایات، بعنوان: آزاد کردیا تین مرتبہ کہا تو کونسی طلاق ہوئی؟، ج: 9 ، ص، 407-408،  ط: مکتبہ دارالعلوم دیوبند )

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قوله ‌سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري....  فإن ‌سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي ‌سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت، لكن لما غلب استعمال حلال الله في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن ولولا ذلك لوقع به الرجعي."

‌‌(كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج: 1، ص: 299، ط: دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

ولا ‌يلحق ‌البائن البائن بأن قال لها أنت بائن ثم قال لها أنت بائن لا يقع إلا طلقة واحدة بائنة لأنه يمكن جعله خبرا عن الأول وهو صادق فيه فلا حاجة إلى جعله إنشاء لأنه اقتضاء ضروري حتى لو قال عنيت به البينونة الغليظة ينبغي أن يعتبر وتثبت به الحرمة الغليظة إلا إذا كان البائن معلقا بأن قال إن دخلت الدار فأنت بائن ثم قال أنت بائن ثم دخلت الدار وهي في العدة تطلق كذا في العيني شرح الكنز.

(کتاب الطلاق،الباب الثاني، الفصل الخامس، ج: 1، ص: 377، ط: دار الفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة و بعد انقضائها."

(كتاب الطلاق، الباب السادس، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج: 1، ص: 473، ط: دار الفکر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144604102136

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں