بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کے درمیان طلاق کے معاملے میں اختلاف کا حکم


سوال

میری شادی کو 28 سال ہوگئے ہیں، میری اہلیہ نے اچانک  دو سال قبل  خاندان والوں  کے سامنے کہا کہ آپ نے مجھے چھ سال قبل  دو طلاقیں دیں،اور  اس کے دو سال بعد  دو طلاقیں دے چکے ہیں ، اور اس دوران چھ سال تک وہ میرے ساتھ ایک چھت تلے رہ رہی تھی،  اور معمول کےمطابق ہم نے  ازدواجی تعلقات  بھی قائم کئے اور اس دوران  ہمارے  بچوں کی شادیاں بھی ہوئیں ، کوئی ایسی بات یا اشارہ تک   نہیں دیا کہ میں طلاق دے چکا ہوں،  معمول کے مطابق گزر بسر ہورہی تھی،اور نہ ہی اہلیہ نے کوئی عدت گزاری،اب جب اس نے یہ بات کہی تو میں نے سختی سے انکار کیا،اور خاندان والوں کے ذریعے سمجھایا   کہ کیوں اپنا گھر توڑنے پر بضد ہو،ان کے پاس نہ  طلاق  پر کوئی گواہ ہے اور نہ  کوئی ثبوت،  لیکن وہ اس بات پر مصر ہے کہ  طلاق دی ہے اور  میں  اس پر قسم اٹھانے کی تیا ر ہوں کہ میں نے طلاق نہیں دی۔

 دو سال کا عرصہ ہوا  میری اہلیہ نے بچوں کو لیکر مجھ سے علیحدہ رہائش اختیار کرلی ہے، پہلے وہ طلاق کا کہہ رہی تھی اب اچانک خلع کا مقدمہ دائر کر دیا،اب آپ جناب سے پوچھنا یہ ہے کہ آیا طلا ق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟دوسرا یہ کہ پہلے طلاق کا کہنا اور اب خلع کا  مقدمہ دائر کرنا، جب کہ میری رضامندی بھی نہیں، کیا اس طرح عدالت کے ذریعے خلع ہوسکتی ہے؟

نوٹ: بچے سب ماں کے پاس رہائش پذیر  ہیں اور  میں اکیلا رہتا ہوں، جب تک بندے کے ہاتھ میں کاروبار تھا، تو سب صحیح تھا،  جب  کاروبار بچوں کے حوالے کیا، اس کے بعد یہ سارے معاملات  شروع ہوئے، مجھ پر فالج کا حملہ بھی ہوا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائل اور ان کی اہلیہ کے بیان میں اختلاف پایا جاتا ہے، سائل  کی اہلیہ طلاق کا دعویٰ کررہی ہے اور سائل اس  دعوی کا انکار کررہا ہے، لہذا  ایسے اختلاف کی صورت میں  اس مسئلہ  کا شرعی حل یہ ہے کہ فریقین(سائل اور ان کی اہلیہ ) اس قضیہ کے فیصلہ کے لیے اپنے کسی قریبی مفتی/ عالم دین کے پاس جا کر انہیں اپنا حکم / منصف  بنائیں ، بعد ازاں  حسبِ ضابطہ شرعی وہ جو فیصلہ  کریں اس کے مطابق عمل کریں۔

2:ہمارے سامنےعدالت سے جاری شدہ  فیصلہ موجودنہیں ، لہذا اس  کےبارے میں کچھ نہیں لکھاجاسکتا، البتہ اگر سائل کی اہلیہ  ان کی رضامندی کے بغیر  عدالت سے خلع کی ڈگری لیتی ہے ، تو یہ خلع شرعاً معتبر نہیں ہوگا، کیوں کہ خلع کے لیے جانبین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے۔

الأصل( لمحمد بن الحسن رحمہ اللہ)میں ہے:

"وإذا ‌ادعت ‌المرأة خلعا أوطلاقا وجحد ذلك الزوج فالمرأة هي المدعية وعليها البينة."

(‌‌كتاب الدعوى والبينات، ج: 7، ص: 577، ط: دار ابن حزم، بيروت)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود."

(کتاب الطلاق،باب الخلع،ج:6،ص173،ط:دارالمعرفه)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."

(كتاب الطلاق/باب شرائط الطلاق وبعضھا یرجع الی المرأة،ج:3،ص441،ط: دارالکتب العلمیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603100888

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں