میں نے اپنی بہن کو سن 2002 میں 3500 روپے ایک انگھوٹی رہن رکھ کر دیے تھے۔ جس میں یہ طے ہوا تھا کہ وہ مجھے تھوڑے عرصے میں رقم ادا کر کے اپنی امانت واپس لے لے گی۔ سن 2006 میں جب انہوں نے اپنی انگوٹھی بغیر پیسوں کے واپس مانگی تو میں نے کہا کہ چوں کہ مجھے اپنی والدہ کی کوئی وراثت نہیں ملی؛ لہذا میں آپسے درخواست کرتا ہوں کہ آپ مجھے یہ انگوٹھی چھوڑ دیں جو کہ میری والدہ کی ہے اور میں اپنی رقم چھوڑتا ہوں۔ اس بات پر انہوں نے خاموشی اختیار کی اور اس کے بعد کبھی بھی اس کا تذکرہ تک نہیں کیا، رہن رکھتے وقت انگوٹھی کی مالیت 4 گرام 100 گرام کے حساب سے تقریبًا 2500 تھی۔ آج وہ اٹھارہ سال کے بعد مجھ سے اپنی انگوٹھی کا مطالبہ کر رہی ہیں جب کہ سونے کی رقم 7200 سے بڑھ کر 115000 ہو گئی ہے۔آپ سے گزارش ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کا تصفیہ فرمائیں!
واضح رہے کہ رہن ختم ہونے کے لیے رہن رکھی گئی چیز قبضے کے ساتھ لوٹانا لازم ہے۔
صورتِ مسئولہ میں چوں کہ آپ نے وہ انگوٹھی بہن کو نہیں لوٹائی ہے، اور 2006 میں بھی آپ کی بہن نے قرض کے بدلے انگوٹھی دینے پر آمادگی ظاہر نہیں کی؛ لہذا آپ اپنے پیسے یعنی 3500 مل جانے کے بعد اس انگوٹھی کو لوٹانے کے پابند ہیں۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6 / 145):
"(والثالث) وجوب تسليم المرهون عند الافتكاك."
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 481):
"(وله حبس رهنه بعد الفسخ) للعقد (حتى يقبض دينه أو يبرئه) لأن الرهن لا يبطل بمجرد الفسخ بل يبقى رهنا ما بقي القبض والدين معا فإذا فات أحدهما لم يبق رهنا زيلعي ودرر وغيرهما."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144205201412
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن