بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سترہ سال بعد وصول ہونے والے قرض پر زکاۃ


سوال

 میرایک آدمی کے ذمے قرض تھا جس کے ملنے کی کوئی امید نہیں تھی، چنانچہ سترہ سال کا طویل عرصہ گزرا، اس طویل عرصہ کے بعد کچھ زور زبردستی کرکے ایک پلاٹ کی صورت میں وصول کی کوئی صورت بن گئی ،وہ بھی اس طرح کہ اسی مقروض کے ذمہ  ایک دوسرے آدمی کابھی قرض تھا اور مقروض نے اس کو اس قرض کےعوض ایک پلاٹ دیا تھا، مگر عملًا  قبضہ نہ  دیتا تھا ،ہم نے جب مجبور کیا تو وہی پلاٹ یہ کہہ کرہمیں دیا کہ اس دوسرے قرض خواہ سے خود نمٹ لو ،ہم نے اس دوسرے قرض خواہ سے کہا کہ پلاٹ ہمیں دے دو اور تمہاری جورقم اس کے ذمہ  ہے وہ ہم تمہیں  دے دیں گے، اس نے موقع کو غنیمت جانااور اس پر راضی ہو ا۔ ہم نےاس کواس کی قرض کی رقم  دے دی اور پلاٹ پر قبضہ کرلیا ۔

یادرہے کہ مقروض نے دوسرے قرض خواہ کو اسٹام پیپر بھی لکھ دیا تھا ،اب وہ پلاٹ ہم نے ساڑھے اکیس لاکھ میں بیچ دیا اور  ھمارا اصل  قرض  سات  لاکھ  روپیہ  تھا ، اب  سوال  یہ ہے کہ اس سات لاکھ روپے  کی سترہ سال کی زکوٰۃ ہمارے ذمے ہے یا نہیں؟ یاد رہے  کہ ہمیں اس طویل عرصہ سے جو نقصان ہوا اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو رقبہ سترہ سال پہلے دولاکھ میں ایک بیگہ فروخت ہوتا تھا آج وہ دولاکھ میں مرلہ بک رہا ہے۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر سائل نے  قرض  کی رقم  کی زکاۃ ادا  نہیں کی تھی تو اب اس رقم کے وصول ہونے کے بعد  گزشتہ سالوں کی زکاۃ ادا کرنا لازم ہے ۔

       فتاوی شامی میں ہے:

"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصاباً وحال الحول، لكن لا فوراً بل (عند قبض أربعين درهماً من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهماً يلزمه درهم."

 (2/ 305،  کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ المال، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102089

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں