حب چوکی گڈانی کے ایک محلہ میں ایک جامع مسجد موجود ہے، جس میں جمعہ کی نماز ادا کی جاتی ہے، اسی مسجد سے تقریباً دس منٹ (پانچ کلو میٹر) کے فاصلہ پر ایک چھوٹی مسجد ہے، یہ مسجد ایک چھوٹی بستی میں ہے، جو شہر سے دور ہے، یہاں کی کل آبادی 45 گھروں پر مشتمل ہے، جس میں سے صرف چار پانچ گھر سنی مسلک سے تعلق رکھنے والوں کے ہیں، مجموعی طور پر آبادی تقریباً ڈیڑھ سو ہے، پانچ چھ دکانیں ہیں، مرغی کی دکان، درزی، نائی، گوشت اور دودھ۔
یہاں جمعہ کی نماز پڑھائی جاتی ہے، اس مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنا درست ہے؟ جنہوں نے جمعہ کی نماز وہاں پڑھی ان کی نماز ہو جائے گی یا نہیں؟
واضح رہے کہ جمعہ کے صحیح ہونے کے لیے شہر ،مضافات شہر یا بڑی بستی /بڑاگاؤں کا ہونا شرط ہے،اوربڑی بستی یا بڑا گاؤں وہ ہوتا ہےجو لوگوں کے عرف میں بڑا گاؤں کہلائے،چنانچہ جس بستی کی مجموعی آبادی کم از کم دو ڈھائی ہزارافراد پر مشتمل ہو ،اور اس گاؤں میں بازا ر اور دوکانیں موجود ہوں ،اور اس بازار میں ضروریات زندگی کا سامان باسہولت مل جاتا ہو،تو ایسے بڑے گاؤں میں جمعہ و عیدین کی نماز قائم کرنا درست ہوتاہے،اور اگر مندرجہ بالا شرائط نہ پائی جائیں ،توایسی بستی میں جمعہ وعیدین کی نماز قائم کرنا درست نہیں ،بلکہ جمعہ کے دن ظہر کی نماز پڑھنا لازم ہوتاہے۔
اب سوال میں جس گاؤں کاذکر ہے،اس میں بھی جمعہ کی شرائط موجود نہ ہونے کی وجہ سے جمعہ کی نماز قائم کرنا درست نہیں ،کیوں کی آبادی صرف 150 افراد پر مشتمل ہے، وہاں جمعہ ادا کرنا جائز نہیں، ظہر پڑھنا لازم ہے۔
اگر کسی ایسی جگہ پہلے سے جمعہ کی نماز ادا کی جارہی ہو جہاں جمعہ کی شرائط نہیں پائی جاتیں تو اسے ختم کرنے کی کوشش کی جائے، اگر جمعہ ختم کرانے میں فتنے یا انتشار کا خوف ہو تو جمعہ ادا کرنا جائز ہو گا، فتنے سے مرایہ یہ ہے کہ لوگ مسئلہ کو نہ سمجھ کر آپس میں اختلاف کرنے لگیں یا جمعہ ترک کرنے کی وجہ سے عام نمازیں بھی ترک کرنے لگ جائیں۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"(ولأدائها شرائط في غير المصلي) . منها المصر هكذا في الكافي، والمصر في ظاهر الرواية الموضع الذي يكون فيه مفت وقاض يقيم الحدود وينفذ الأحكام وبلغت أبنيته أبنية منى، هكذا في الظهيرية وفتاوى قاضي خان.وفي الخلاصة وعليه الاعتماد، كذا في التتارخانية ومعنى إقامة الحدود القدرة عليها، هكذا في الغياثية. وكما يجوز أداء الجمعة في المصر يجوز أداؤها في فناء المصر وهو الموضع المعد لمصالح المصر متصلا بالمصر."
(كتاب الصلاة ، الباب السادس عشر في صلاة الجمعة ، 145/1، ط:رشيدية)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"قصبہ اور بڑےگاؤں میں حنفیہ کے نزدیک جمعہ جائز ہے،چھوٹے گاؤں میں جائز نہیں ،بڑا گاؤں وہ ہےجس میں گلی کوچے ہوں ،بازارہو،روزمرہ کی ضروریات ملتی ہوں،تین چار ہزار کی آبادی ہو،ان میں مسلمان خواہ اقلیت میں یا برابر یازائد۔"
(باب صلوۃ الجمعۃ،جلد :8،صفحہ:98،طبع :جامعہ فاروقیہ)
کفایت المفتی میں ہے:
"اگر اس جگہ ایک سو برس سے جمعہ کی نماز ہوتی ہے تو اسے بند نہ کرنا چاہیے کہ اس کی بندش میں دوسرے فتن و فساد کا اندیشہ ہے، جو لوگ نہ پڑھیں ان پر اعتراض اور طعن نہ کرنا چاہیے، وہ اپنی ظہر کی نماز پڑھ لیا کریں اور جو جمعہ پڑھیں وہ جمعہ پڑھ لیا کریں۔"
( کفایت المفتی، کتاب الصلاۃ، پانچواں باب جلد : 3 ، صفحہ : 187، طبع : دارالاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602101883
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن