بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

15 تولے سونے کی زکاۃ


سوال

15 تولے سونے کی زکاۃ کتنی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی شخص کی ملکیت میں صرف سونا ہو، سونے  کے ساتھ اس کے پاس چاندی، مالِ تجارت اورنقدی  میں سے کچھ بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں صرف سونے کے نصاب کا اعتبار ہوتا ہے اور سونے کا نصاب  ساڑھے سات تولہ ہے۔ 

لہذا صورت مسئولہ میں اگر سائلہ کے پاس 15 تولہ سونا ہے ، تو  15 تولہ سونے کی قیمت معلوم کرکے اس کا ڈھائی فیصد (2.5٪)بطور زکاۃ ادا کرے، اور اگر سونے کے علاوہ چاندی، نقدی یا مالِ تجارت بھی   ہے تو   تمام اموال کی مجموعی  قیمت لگا کر اس کا ڈھائی فیصد (چالیسواں حصہ ) زکاۃ کے طور پر ادا کرے۔

بدائع الصنائع  میں ہے:

"وأما مقدار الواجب فيه فربع العشر بحديث عمرو بن حزم وحديث علي رضي الله عنهما -لأن نصف مثقال من عشرين مثقالا ربع عشره.وأما صفة الواجب فنذكرها إن شاء الله تعالى هذا إذا كان له فضة مفردة أو ذهب مفرد۔

فأما إذا كان له الصنفان جميعا فإن لم يكن كل واحد منهما نصابا بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا"   

(كتاب الزكاة، ‌‌فصل مقدار الواجب في زكاة الذهب، ج:2، ص:18، ط:دار الكتب العلمية)

وفیہ ایضا:

"أما الأثمان المطلقة وهي الذهب والفضة أما قدر النصاب فيهما فالأمر لا يخلو إما أن يكون له فضة مفردة أو ذهب مفرد أو اجتمع له ‌الصنفان جميعا، فإن كان له فضة مفردة فلا زكاة فيها حتى تبلغ مائتي درهم وزنا وزن سبعة فإذا بلغت ففيها خمسة دراهم لما روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما كتب كتاب الصدقات لعمرو بن حزم ذكر فيه الفضة ليس فيها صدقة حتى تبلغ مائتي درهم فإذا بلغت مائتين ففيها خمسة دراهم.وروي عنه صلى الله عليه وسلم أنه قال لمعاذ لما بعثه إلى اليمن «ليس فيما دون مائتين من الورق شيء، وفي مائتين خمسة۔"

(کتاب الزکاۃ، ‌‌فصل صفة نصاب الزكاة في الفضة، ج:2، ص:16، ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102275

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں